پاکستان کا نوجوان طبقہ ایرانی شعراء کے ہم طراز
ایران اور پاکستان کے دیرینہ اور تاریخی تعلقات ہیں۔ ایران پہلا ملک ہے جس نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کو ایک مستقل ملک کی حیثیت سے تسلیم کیا۔
خبر رساں ادارہ تسنیم: انقلاب ایران کے پس منظر میں علامہ محمد اقبال لاہوری کے افکار نظر آتے ہیں ۔ اقبال اپنی اردو اور فارسی شاعری میں ایران کو ایک ایسے ملک کے طور پر سامنے لاتے ہیں جو پورے جہان اسلام کا مرکز و محور کہلایا جائے گا۔ وہ اپنے ایک ارد و شعر میں تہران کو بھی جنیوا کی طرح بلاد مشرق کی مرکزیت حاصل کرنے کی خواہش یوں ظاہر کرتے ہیں:
تہران ہو گر عالم مشرق کا جنیوا شاید کرہ ء ارض کی تقدیر بدل جائے
اقبال اپنی ایک فارسی نظم "خطاب بہ جوانان عجم" میں انقلاب اسلامی ایران کی پیشین گوئی کرتے ہیں۔ بعض محققین کا خیال ہے کہ علامہ اقبال اس نظم میں انقلاب ایران اور امام خمینی (رح) کی طرف اشارہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
می رسد مردی کہ زنجیر غلامان بشکند دیدہ ام از روزن دیوار زندان شما
میں نے آپ کے زندان کے روزن سے دیکھا ہے کہ ایک ایسا مرد میدان عمل میں اترے گا جو غلاموں کی ساری زنجیریں توڑ ڈالے گا۔
ایران میں ڈاکٹر علی شریعتی نے علامہ اقبال کے افکار اور نظریات کو وسعت دینے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے اور اپنی تصنیف "ما و اقبال" میں علامہ اقبال کے افکار پر فکر افروز خیالات کا اظہار کیا ہے۔ اس کے علاوہ رہبر معظم انقلاب حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے بھی اپنے بیانات میں علامہ اقبال سے اپنی عقیدت کا اظہار کیا اور فرمایا ہے کہ : "انقلاب اسلامی ایران علامہ اقبال کا مرہون منت ہے۔"
سنہ 2010ء میں پاکستان میں سیلاب نے بڑی تباہی مچائی اور بہت سے پاکستانیوں کو مصائب اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس مشکل گھڑی میں رہبر انقلاب حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے رمضان کے مہینے میں نماز جمعہ میں پاکستانی عوام کے ساتھ بڑے دکھ کا اظہار کیا اور ایرانی عوام سے اپیل کی اس مشکل حالات میں پاکستانی بھائیوں کی بھر پور مدد کریں۔ ایرانی عوام نے رہبر انقلاب کے اعلان پر لبیک کہتے ہوئے سیلاب سے متاثر پاکستانی بھائیوں کے لیے امدادی سامان اکھٹا کر کے ایرانی ہلال احمر کے ذریعے پاکستان بھجوا دیا۔
ایران اور پاکستان کے درمیان ثقافتی، تجارتی اور معاشی تعلقات استوار ہیں اور ایران۔ پاک گیس پائپ لائن ایسا اقتصادی منصوبہ ہے جس پر کئی برسوں سے گفتگو چل رہی ہے اور اس کی تکمیل سے ایران اور پاکستان کے تعلقات میں خاطر خواہ پیشرفت سامنے آئے گی، پاکستان میں جو گیس کی قلت ہے اس منصوبے سے پوری ہو گی اور پاکستانی صنعت کو دگنا فروغ حا صل ہوگا۔
جغرافیائی لحاظ سے اگر دیکھا جائے چابہار اور گوادر پورٹس دونوں ممالک کے معاشی تعلقات بڑھانے میں اہمیت کے حامل نظر آتے ہیں اور یہ دونوں پورٹس نہ صرف دونوں اسلامی ممالک کے درمیان تجارتی لین دین میں سہولت فراہم کریں گے بلکہ پاک ۔ چین اقتصادی کریڈور کو خلیجی ممالک اور مشرق وسطی کے ملکوں سے ملانے میں بھی بھرپور صلاحیت رکھتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
پاکستان میں تیار شدہ زرعی، صنعتی اور ٹیکسٹائل کی پیداوار ایران کی منڈیوں تک رسائی حاصل کرنے میں چابہار اور گوادر پورٹس بے حد اہمیت کے حامل ہیں اور ایران پاکستان کو توانائی کے شعبے میں خا ص طور پر تیل، گیس اور بجلی کی قلت پوری کرنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔
ثقافتی سطح پر اگر دیکھا جائے تو پاکستانی قوم کو فارسی زبان و ادب سے گہرا رشتہ ہے اور پاکستان کی اہم یونیورسٹیوں میں فارسی زبان و ادب کا شعبہ قائم ہے جو فارسی زبان و ادب کی ترویج و اشاعت میں اہم کردار ادا کر تے ہیں۔ ایرانی حکومت سالانہ فارسی زبان کے علاوہ میڈیکل اور دیگر تعلمی و تدریسی شعبات میں پاکستانی طلباء اور طالبات کو تعلیمی وظایف مقرر کرتی ہے جس میں ایران کی ہائر ایجوکیشن اور سعدی فاونڈیشن منہمک ہوتے ہیں۔ پاکستان میں فارسی زبان و ادب اور ایرانی ثقافت کی ترویج و اشاعت میں ایران کی سازمان فرہنگ و ارتباطات اسلامی خاص طور پر مصروف عمل نظر آتی ہے۔
تہران یونیورسٹی میں سنہ 1991ء میں اردو زبان و ادب کا شعبہ قائم ہوا اور شعبے میں بی۔ اے اور ایم اےکی سطح پر کورس پڑھایا جاتا ہے اور کئی طلباء و طالبات مذکورہ شعبے سے فارغ التحصیل ہو چکے ہیں۔ اصفہان اور فردوسی یونیورسٹیوں میں اردو زبان و ادب کا شعبہ قائم کرنے کی مدت سے بحث چل رہی ہے لیکن پاکستانی حکومت کی طرف سے کوئی عملی اقدام سامنے نہیں آیا ہے۔ پاکستان کی چھوٹی بڑی درسگاہوں میں فارسی زبان و ادب کے بہت سے مراکز قائم ہیں اور پورے پاکستان میں فارسی زبان و ادب کو ایرانی حکومت کی طرف سے اچھی سرپرستی حاصل ہے اور افسوس کی بات ہے کہ ایران کی صرف ایک یونیورسٹی میں اردو زبان باقاعدہ طور پر پڑھائی جاتی ہے حالانکہ اردو زبان کو جسے دونوں ملکوں کے تعلقات بڑھانے میں خاص اہمیت حاصل ہے، اس کی ترویج اور اشاعت میں کوتاہیاں نظر آ رہی ہیں۔ ایران کے صوبہ خراسان اور اصفہان کی یونیورسٹیوں میں اردو شعبہ قائم کرنے کے اچھے مواقع میسر ہیں، پاکستانی حکومت کو اس میں زیادہ دلچسپی ظاہر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
دونوں ممالک کے اندر بڑے بڑے تاریخی مقامات موجود ہیں اور سیکورٹی حالات بہتر ہونے کے ساتھ ساتھ ٹوریزم کو فروغ دینے سے دونوں ملکوں کے درمیان ثقافتی تعلقات میں بھی زیادہ بہتری سامنے آئے گی۔ پاکستان کے مختلف صوبوں میں تاریخی مقامات میں فارسی اشعار کندہ ہیں جو ایرانی ثقافت اور ادب کی نشانی سمجھی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کی بڑی لائبریریوں اور کتب خانوں میں فارسی زبان و ادب کے بہت سے قلمی نسخے دستیاب ہیں جن کی مرمت اور از سرنو ترتیب دینے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ یہ ایک ایسا فارسی ذخیرہ ہے جو پاکستان کے کتب خانوں کے علاوہ نجی مجموعوں کی شکل میں گھروں میں محفوظ ہے۔ فارسی زبان و ادب برصغیر پاک و ہند کے بطن میں اتنا رس بس ہو چکا ہے کہ آج بھی پاکستانی عوام کو حافظ، سعدی، رومی کے اشعار بھی زبانی یاد ہیں اور یہ اشعار تبرکاً بعض مخصوص محفلوں کی زینت بن جاتے ہیں۔ آج کل کے دور میں فارسی سے محبت کرنے والوں کی پاکستان میں کمی نہیں ہے، نوجوان طبقے میں ایسے شاعر سامنے آ چکے ہیں جو ایرانی شعراء کے ہم طراز آنے لگے ہیں۔