تمام مظلوم مسلمانوں کا درد صرف ایران کے دل میں ہے/ اسلامی اتحاد کی گمشدگی کا اشتہار دینا پڑے گا
وفاقی ایوان ہائے صنعت وتجارت پاکستان کی اقلیتی کمیٹی کے چیئرمین اور ہندو ہلیپ لائن کے رہنما کا اس بیان کیساتھ کہ فلسطین کے معاملے پر صرف ایران ہی آواز بلند کرتا ہے کہا: "تمام مظلوم مسلمانوں کا درد صرف ایرانی حکومت اور قوم کے دل میں ہے جبکہ امریکہ اور اسرائیل مسلمانوں کو ایک نئی جنگ میں دھکیلنا چاہتے ہیں۔
وفاقی ایوان ہائے صنعت و تجارت پاکستان کی اقلیتی کمیٹی کے چیئرمین اور ہندو ہلیپ لائن کے رہنما آتم پرکاش نے کراچی میں تسنیم نیوز ایجنسی سے خصوصی بات چیت میں کہا ہے کہ "برما کی موجودہ صورتحال پر پوری ہندو برادری مسلمانوں کے ساتھ ہے لیکن دکھ کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ مسلمانوں میں آپس میں خود اتفاق نہیں۔ برما میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس کا مقصد امریکا اور اسرائیل کا مسلمانوں کو کسی نئی جنگ میں دھکیلنا ہے، کینوکہ ان کا شعار شروع سے ہی یہ رہا ہے کہ مسلمانوں کو آپس میں لڑواؤ، یا ان کی توجہ کسی اور جگہ مرکوز کردو۔ اس کے ساتھ ہی دنیا کے چھپن اسلامی ممالک کی خاموشی بھی معنی خیز ہے، حالانکہ دنیا میں ایک ارب چالیس کروڑ سے زائد مسلمان آباد ہیں، اس کے باوجود برما میں مسلمانوں پر ظلم وستم ہونا سمجھ سے بالاتر ہے۔"
ایران اور ترکی کی جانب سے برما کے مسلمانوں کے لئے آواز اٹھانے کے سوال پر انھوں نے کہا کہ "ترکی اور ایران کی جانب سے برما کے مسلمانوں کی مدد کا اعلان قابل ستائش ہے، اس سے پہلے بھی ہم نے دیکھا ہے کہ فلسطین کے معاملے پر بھی صرف ایران ہی آواز بلند کرتا ہے، گویا تمام مظلوم مسلمانوں کا درد صرف ایرانی حکومت اور قوم کے دل میں ہے، سعودی عرب نے چونتیس اسلامی ملکوں کا اتحاد بنایا تھا، لیکن اس کا کیا ہوا کچھ معلوم نہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اتحاد سعوی عرب نے صرف اپنے دفاع کے لئے قائم کیا ہے، لگتا ہے اسلامی اتحاد کی گمشدگی کا اشتہار دینا پڑے گا۔ سعودی عرب جو مسلمانوں کا مرکز سمجھا جاتا ہے مسلم امہ کے درمیان اتحاد کی ذمہ داری اسی کی بنتی ہے کہ وہ فوری طور پر برما میں اسلامی فورس روانہ کرے تاکہ مسلمانوں کی داد رسی کی جاسکے۔"
انہوں نے کہا کہ "پاکستان میں بسنے والی تمام ہندو برادری مصیبت کی اس گھڑی میں برما کے مسلمانوں کے ساتھ ہے۔ برما میں صرف مسلمانوں پر نہیں بلکہ انسانیت پر ظلم ہورہا ہے، انسانوں کو مارا جارہا ہے، ہندو برادری مسلمانوں پر ظلم وستم کے خلاف سراپا احتجاج ہے۔ برما میں مسلمانوں کو میانمار حکومت سفری دستاویزات فراہم کرے تاکہ وہ اپنی جان بچا کر جہاں جانا چاہیں جاسکیں، اگر وہ پاکستان آئیں گے تو ہم انھیں مدد فراہم کریں گے۔"
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ "بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے منعقدہ پروگراموں میں ہندو برادری بھرپور شرکت کرتی ہے۔ اہل تشیع، سنی، دیوبندی سب کے ساتھ مل کر ہم ان کے دکھ اور سکھ مناتے ہیں۔ عیدغدیر ہو یا عید مباہلہ یا ہفتہ وحدت کے پروگرام اسی طرح عیدمیلادالنبی کا جشن ہو یا یوم علی کا جلوس، ہندو برادری سب پروگراموں میں مسلمانوں کے شانہ بشانہ ہوتی ہے۔ ایسے پروگرام ہوتے رہنا چاہیئں کیونکہ ان تقاریب کے نتیجے میں نئی نسل میں مذاہب اور مسالک کے بارے میں نفرتیں کم ہوتی ہیں۔"
اتحاد بین المذاہب کے حوالے سے ہندو رہنما آتم پرکاش نے کہا کہ "پاکستان میں شیعہ، سنی، دیوبندی، بریلوی، عیسائی، سکھ اور ہندو سب مل کر پیار و محبت سے رہتے ہیں، ہم لوگ مسلمانوں کے تمام فرقوں کی مذہبی تقاریب میں شرکت کرتے ہیں، رمضان المبارک میں بھی تقریبات میں آنا جانا ہوتا ہے، کرسمس کے موقع پر بھی خوشیاں مناتے ہیں، جبکی دیوالی اور ہولی میں بھی مسلمان ہمارے ساتھ شامل ہوتے ہیں، یعنی ہمارا ایمان صرف انسانیت ہے، محبت ہے، پیار ہے، اور میرے خیال سے ہر مذہب کا پیغام محبت اور انسانیت ہی ہے۔"
محرم الحرام کی آمد کے حوالے سے آتم پرکاش نے کہا کہ "امام حسین علیہ السلام کی تعلیمات صرف شیعہ یا مسلمانوں کیلئے نہیں، بلکہ تمام دنیا کے انسانوں کے لئے ہے۔ ہم بھی محرم میں ان کا سوگ مناتے ہیں، مجالس میں شرکت کرتے ہیں، ان کی یاد میں پانی کی سبیلیں لگاتے ہیں، ہندوستان میں برہمن حسینی ہندو برادری کے لوگ محرم کا بہت ادب و احترام اور نذرونیاز کرتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ برہمن حسینی ایک قبیلہ تھا جو امام حسین کی مدد کیلئے کربلا روانہ ہوا لیکن وہ تاخیر سے پہنچا، واقعہ کربلا ہوچکا تھا۔ اس قبیلے نے تاخیر سے پہنچنے پر امام حسین کی محبت میں اپنے سات بیٹے شہید کردئیے۔ ہمارے پیشواؤں کا کہنا ہے کہ کربلا کا اصل پیغام اپنی زندگی کو امام حسین کی تعلیمات کے مطابق ڈھالنا ہے۔ برہمن حسینی کی پونا اور دلی میں امام بارگارہ بھی ہے، جہاں عزاداری اور نذرونیاز کی جاتی ہے۔"
آتم پرکاش نے بتایا کہ "ان کے مذہب کے مطابق امام حسین علیہ السلام کی زوجہ بی بی شہربانو کی بہن مہربانو کی شادی ہندوستان کے مہاراجہ سے ہوئی تھی، اہل تشیع علما بھی اس بات کی تائید کرتے ہیں۔ ہمیں جب اس تاریخ کا علم ہوا تو ہم حیران رہ گئے کہ ہمارے آباؤاجداد امام حسین سے اس قدر عقیدت رکھتے تھے، یہی وجہ ہے کہ آج پوری ہندو برادری امام کی یاد مناتی ہے۔ مجالس اور جلوس میں شرکت کرتی ہے۔"
آتم پرکاش نے کہا کہ "دنیا میں ہر طرف ہوس و لالچ کا بازار گرم ہے، آج سے چودہ سو سال پہلے اقتدار کے پجاریوں نے حضرت علی علیہ السلام کو مکہ و مدینے سے نکلنے پر مجبور کیا، امام حسین علیہ السلام نے بھی اسلام کی بقا کے لئے اپنے نانا کا شہر چھوڑ دیا، لوگ ان کی جان کے درپے تھے، انہوں نے حضرت علی علیہ السلام کا بدلہ کربلا میں امام حسین علیہ السلام سے لیا۔ جہاں لاکھوں دشمنوں نے مل کر امام حسین علیہ السلام اور ان کے گھر والوں کو شہید کردیا، کربلا انسانیت کا درس دیتی ہے۔ کربلا قربانی سکھاتی ہے، کربلا اتحاد و مساوات بیان کرتی ہے۔ سچ اور حق کے راستے پر ڈٹے رہنا کربلا کا پیغام ہے۔"
انھوں نے مزید کہا کہ "ہندوؤں کی مقدس کتاب گیتا میں بھی کشن بھگوان نے کہا تھا کہ حق اور سچ کی راہ میں اگر تمہارے اپنے بھی آجائیں تو ان سے جنگ لڑنا۔ یعنی حق و باطل کے درمیان فرق کی جو تنظیر کربلا سے ملی، وہ کہیں نظر نہیں آتی۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے پیارے نواسوں کے لئے فرمایا کہ جو انہیں پیار کرے گا وہ مجھے پیارا ہے اور جس نے ان سے دشمنی کی وہ میرا دشمن ہے۔ امام حسین کانام آج بھی زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا۔"