ایران مسلم امہ کے درمیان اتحاد و یگانگت کی علامت ہے/ سعودی عرب یہود و نصاریٰ کے ہاتھوں کھیل رہا ہے
رہنما پاکستان علما کونسل: "کربلا میں اسلام اور کفر کے درمیان لکیر کھینچ دی گئی/ ہمارے ہاں لیڈروں نے لوگوں کو ڈالر، درہم، ریال اور دینار سمیٹ کر کٹوا دیا، مروادیا/ عرب کے جبہ اور قبا پر مت جانا، اگر انھیں اتارو گے تو اس کے اندر سے امریکی کوٹ نکلیں گے."
پاکستان علما کونسل کے رہنما مولانا منظر الحق تھانوی نے کراچی میں تسنیم نیوز ایجنسی کے نمائندے سے خصوصی بات چیت میں کہا کہ "اگلا مہینہ محرم الحرام شہادتوں سے بھرپور ہے، امام حسین علیہ السلام نے اپنے رفقاء کے ساتھ میدان کربلا میں جو عظیم شہادت دی، اس کی کہیں نظیر نہیں ملتی، محرم الحرام صرف یہ نہیں کہ دس روز آئے اور چلے گئے، بلکہ عاشور تک پورے دس روز عبادتوں سے پُر ہیں، انتہائی اہمیت کے حامل ہیں یہ دس روز، کربلا میں حضرت امام حسین علیہ السلام اور ان کے رفقاء نے اسلام اور کفر کے درمیان ایک لکیر کھینچ دی، دنیا کو بتلا دیا کہ جب کبھی حق اور باطل کے درمیان معرکہ ہوجائے تو قرآن کی وہ آیت یاد رکھنا کہ "حق آیا اور باطل مٹ گیا"، اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا دامن سختی سے تھام لینا، اسی میں دنیا و آخرت کی بہبود ہے، امام حسین علیہ السلام نے فرمایا کہ جاں نثار اہل بیت اور رفقاء میرے ساتھ ہیں۔"
انہوں نے مزید کہا کہ "حضرت امام حسین علیہ السلام نے کفر کی لاکھوں افواج کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں کیا، کسی قسم کی مصالحت نہیں کی، اسلام کے نام پر ڈٹ گئے، فرمایا کہ میرے نانا کی شریعت مٹے گی نہیں، میں مٹتا ہوں تو مٹ جاوں، یہی سوچ کر امام حسین علیہ السلام نے کربلا میں جام شہادت نوش کیا، تاریخ شاہد ہے کہ امام علیہ السلام کو لوگوں نے روکا کہ آپ کوفہ مت جائیں، آپ کے ساتھ دھوکہ ہورہا ہے، لیکن آپ میدان جہاد میں چلے گئے، دین اور شریعت کے آگے کسی بات کی پروا کئے بغیر، شہید ہوگئے، لیکن ہمارے یہاں جہاد کے نام پر بڑے بڑے جتنے بھی لیڈر ہیں، جنھوں نے جہادی تنظیمیں بنا رکھی تھیں، ان میں سے ایک بھی میدان عمل میں نہیں گیا، سب نے صرف لوگوں کو ڈالر، درہم، ریال اور دینار سمیٹ کر کٹوا دیا، مروادیا۔ یہ سنتت کے خلاف ہے۔"
پیغام کربلا کے حوالے سے بات کرتے ہوئے مولانا منظر الحق تھانوی نے کہا کہ "کربلا محبت، مساوات، برداشت، صبر، اتحاد، حق گوئی، جدوجہد، ایثار اور قربانی کا درس دیتا ہے، کربلا سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اگر میدان عمل میں ضرروت پڑ جائے تو اپنے ساتھیوں اور دوسرے لوگوں کو مروانے کے بجائے سب سے پہلے اپنا سر پیش کیا جائے، بس اسی سنت کو مسلمانوں نے چھوڑ دیا اور آج مسلمان دنیا بھر میں ذلیل و خوار ہو رہے ہیں۔ آج جہاد صرف نام کا ہے، آج برما کی صورتحال دیکھ لیں، وہاں مسلمانوں کا کیا حال ہے، دنیا بھر کے مسمان کہاں ہیں، فلسطین کی صورتحال پر مسلمانوں کا کیا رویہ ہے، کیا مسلمان صرف ایک دوسرے کو مارنے کے لئے اور نیچا دکھانے کے لئے ہی رہ گئے ہیں، دنیا بھر میں مسلمانوں کی حالت زار دیکھ کر سعودی عرب کی نااہلی پر دل خون کے آنسو روتا ہے۔"
عالم اسلام میں سعودی عرب کے کردار پر بات کرتے ہوئے مولانا منظر الحق تھانوی نے کہا کہ سعودی عرب نے دنیا بھر میں مسلمانوں کو بدنام کردیا، سعودی عرب یہود و نصاریٰ کے ہاتھوں کھیل رہا ہے، امت مسلمہ اس وقت بڑے نازک دور سے گزر رہی ہے، مسلمان اس وقت اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے یک زبان ہوجائیں، اسلام کے نام پر سعودی عرب کی مزید من مانی قبول نہیں کی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ سعودی عرب کو کوئی اختیار نہیں کہ مسلم امہ کے فیصلے تن تنہا کرتا پھرے، مکہ اور مدینے کے اعتبار سے اسے ممتاز حیثیت ضرور حاصل ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ مادر پدر آزاد مسلم ممالک کی ذلت و رسوائی کا سبب بنے، آل سعود نے دنیا بھر میں مسلمانوں کی جو شکل پیش کی، اس نے سب کو شرمسار کردیا، سعودی عرب یہود و نصاریٰ کے ہاتھوں کٹھ پتلی بنا ہوا ہے، جو ان کے مقاصد پورے کر رہا ہے۔
عالم اسلام کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ آج دنیا بھر کے انسانوں کو اس قدر خطرہ نہیں، جتنا خود مسلمان کو مسلمان سے ہے، ہماری سالمیت خطرے میں ہے، عالمی منظر نامہ دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ہم بحیثیت مسلمان کس پستی کا شکار ہیں، مسائل کا حل چشم پوشی نہیں، اینٹی بایوٹیک دوا دے کر بیماری دبائی جاسکتی ہے، مستقل علاج نہیں کیا جاسکتا، بلکہ بیماری کی جڑ کا خاتمہ ضروری ہے۔
انھوں نے کہا کہ ضروری نہیں کہ جب آفت ہم پر آئے ہم تب ہی آواز بلند کریں یا اس کی مذمت کریں، برما، فلسطین، یمن، شام، عراق، کشمیر، بوسنیا سب ہمارے مسائل ہیں، لیکن ہر ملک کو صرف اپنی پڑی ہے، عجیب افراتفری کا عالم ہے، جب تک ہم اپنی مرضی کے اسباب اور وجوہات تلاش کرتے رہیں گے، ہم اسی پستی اور رسوائی کا شکار رہیں گے۔
امت مسلمہ کے انتشار کے اسباب پر اظہار خیال کرتے ہوئے مولانا منظر الحق تھانوی نے کہا کہ امت مسلمہ اس لئے منتشر ہے کہ ہم خود مغرب بالخصوص امریکا اور اسرائیل کو دستہ فراہم کر رہے ہیں۔
انھوں نے سعودی عرب کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم چند ٹکوں کی خاطر ضمیر کا سودا کر رہے ہیں، چند پیسوں کی خاطر مسلمان بک جاتا ہے، اور نتیجے میں پوری امت مسلمہ کو لے ڈوبتا ہے، غیر کے عزائم مسلمانوں کی وجہ سے کامیاب ہو رہے ہیں، لیکن امت مسلمہ اغیار کو دستہ فراہم کررہی ہے، انھیں طاقت فراہم کر رہی ہے، ضروری نہیں کہ یہ طاقت جنگی ہی ہو، بلکہ یہ طاقت مالی اور جذباتی بھی ہوسکتی ہے، جس سے دشمن کا حوصلہ بڑھتا ہے۔
امت مسلمہ کے اتحاد میں پاکستان اور ایران کے کردار پر بات کرت ہوئے انھوں نے کہا کہ پاکستان واحد ایٹمی قوت ہے، جس سے دنیا خوف زدہ ہے، جبکہ ایران مسلم امہ کے درمیان اتحاد و یگانگت کی علامت ہے، مشرق وسطیٰ کی موکودہ صورتحال میں بہتری کے لئے ایران اور پاکستان بہترین ثالثی کا کردار ادا کرسکتے ہیں، قطر کا معاملہ دیکھ لیں، شام اور یمن کی صورتحال سب کے سامنے ہے، ایسی صورتحال میں یقینا ایران اپنے دوست ملکوں کے ساتھ مل کر صورتحال کو کوئی بہتر حل نکال سکتا ہے، بلکہ اب تو سعودی عرب نے بھی ایران کے لئے کچھ نرم رویہ اختیار کیا ہے، تو میرا خیال ہے کہ پاکستان اور ایران دونوں مشرق وسطیٰ کو تباہی سے بچانے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
برما کی موجودہ صورتحال اور عالم اسلام کے کردار پر بات کرتے ہوئے مولانا منظر الحق تھانوی نے کہا کہ برما میں مسلمانوں کو بے دردی سے مارا اور کاٹا جا رہا ہے، لیکن عالم اسلام خاموش ہے، صرف ایران اور ترکی نے روہنگیا مسلمانوں کے لئے آواز اٹھائی ہے، امریکا چاہتا ہے کہ عالم اسلام میں کسی نہ کسی طرح بے چینی پھیلی رہے اور وہ اسرائیل کو سپورٹ کرتا رہے، امریکا چین کو بھی نیچا دکھانا چاہتا ہے، وہ چاہتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح پاک چین اقتصادی راہداری کا منصوبہ کھٹائی کا شکار ہوجائے، پاکستان ترقی نہ کرے اسی لئے امریکی صدر نے پاکستان کے لئے ہرزہ سرائی کی، لیکن برما کے معاملے پر ہم دیکھتے ہیں کہ سعودی اتحاد بالکال خاموش ہے، ہم یہ پوچھنے میں بالکل حق بجانب ہیں کہ وہ انتالیس یا اکتالیس اسلامی ملکوں کو اتحاد کہاں گیا، اسے روہنگیا مسلمانوں پر ظلم و ستم کیوں دکھائی نہیں دے رہا۔
اسرائیل کے روز بروز بڑھتے جارحانہ عزائم پر پاکستان علما کونسل کے رہنما نے کہا کہ سعودی عرب وہ واحد اسلامی ملک ہے، جس نے اسرائیل کو نہ صرف تسلیم کیا ہے، بلکہ اس سے سفارتی تعلقات بھی قائم کئے ہوئے ہیں، اس کے برعکس دنیا کے کسی اسلامی ملک نے اسرائیل کا وجود تسلیم نہیں کیا، ہمارے دادا احتشام الحق تھانوی نے انیس سو ستتر میں نشتر پارک کے ایک بہت بڑے جلسے میں موجودہ دور کی نشاندہی کی تھی، ان کے مطابق عرب کے جبہ اور قبا پر مت جانا، اگر انھیں اتارو گے تو اس کے اندر سے امریکی کوٹ نکلیں گے۔
انھوں نے کہا کہ صرف کلمہ پڑھ لینا، نماز اور روزہ ہی مسلمان ہونے کے لئے کافی نہیں، حقوق العباد اصل چیز ہے، معذرت کے ساتھ آج علما تو بہت ہیں، لیکن ان میں اخلاق نہیں، عمل و کردار نہیں، کسی مسلمان کی غیرت یہ کیسے گوارا کرسکتی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو مارے یا قتل کردے، آپ یمن کا جائزہ لیں، شام میں دیکھیں، عراق کے حالات پر غرر کریں، کون ہے وہاں، کون کروا رہا ہے، یہ سب، ظاہر ہے ہمارے اپنے مسلمان ملے ہوئے ہیں اس سارے معاملے میں، اور سعودی عرب ہر محاذ پر پیش پیش ہے۔
مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورتحال پر بات کرتے ہوئے مولانا منظر الحق تھانوی نے کہا کہ مسلک اور زبان کی بنیاد پر ہم دلوں کو توڑ رہے ہیں، لوگوں کو مار رہے ہیں، مشرق وسطیٰ میں یہی سب تو ہو رہا ہے، وہاں کے حالات دن بدن خراب ہوتے جارہے ہیں، ہمیں یکجا ہونے کی ضرورت ہے، اسلامی سربراہی تنظیم، سعودی اتحاد سب بے کار ہے، یہ سب امریکا کی سرپرستی میں ہورہا ہے، اس معاملے میں سعودی عرب کا اہم کردار ہونا چاہیئے تھا، لیکن اس نے قطر کے خلاف بھی محاذ کھول دیا، حالانکہ قطر کا معاملہ سننے اور سمجھنے کی ضرورت ہے، جو مل بیٹھ کر حل کیا جاسکتا ہے، لیکن سعودی عرب دیگر ملکوں سے مل کر اسے طول دے رہا ہے۔
سعودی عرب کے اسلامی اتحاد کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ انتالیس یا چالیس ملکوں کو سعودی اتحاد بے کار ہے، یہ ایک ایسا اتحاد ہے، جو صرف سعودی شاہی خاندان کا شیرازہ بکھرنے سے بچانے کے لئے بنایا گیا ہے، اس اتحاد کا مقصد سعودی شاہی نظام کا تحفظ ہے، حالانکہ اسے مسلمانوں کو جوڑنے انھیں قریب لانے کے استعمال کرنا چاہیئے تھا، لیکن ایسا نہیں ہوا، بلکہ اس اتحاد کے بعد پہی قطر کا قضیہ سامنے آیا ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ گذشتہ برس خطبہ حج کے دوران امام کعبہ نے بھی مسلمانوں کو سعودی عرب کی حفاظت کی تلقین کی تھی، یعنی اندر ہی اندر کچھ خرابی ہے، کچھ ہو رہا ہے، جس کی بہتری کے لئے دعائیں کی جارہی ہیں، آپ نے دیکھا امام کعبہ نے فلسطین، کشمیر، بوسنیا، چیچنیا اور شام کے لئے تو کبھی دعا نہیں کی، ان کی حفاظت کی ہدایت تو نہیں کی، اب ان پر خود پر ضرب پڑ رہی ہے تو انھیں اسلامی ملکوں کے تعاون کی ضرورت ہے۔
بیت المقدس پر صیہونی ریاست کے تسلط کے حوالے سے بات کرتے ہوئے مولانا منظر الحق تھانوی نے کہا کہ اسرائیل فلسطین کو اپنی زمین سمجھتا ہے، اس لئے ان کی دیدہ دلیری ہے، ساتھ ہی امریکا سمیت بعض اسلامی ملک بھی اسے سپورٹ کررہے ہیں، اس لئے اس کی دادا گیری مزید بڑھ گئی ہے، جب تک مسلمان ایک پیج پر نہیں آئیں گے، اتحاد کا مظاہرہ نہیں کریں گے، مسائل جوں کے توں رہیں گے، ہمیں مسالک اور مذہب سے بالاتر ہوکر سوچنا ہوگا، تب ہی بیت المقدس آزاد ہوسکے گا۔
فلسطین کی آزادی کے حوالے سے حماس کی جدوجہد پر انھوں نے کہا کہ حماس ایک چھوٹی سی تنظیم ہے، لیکن اس نے اسرائیل کو ناکوں چنے چبوادیئے ہیں، بعض مسلمان ملک حماس کے خلاف ہیں، وہ اس جماعت کے لئے شیعہ سنی کی تفریق کرنا چاہتے ہیں، لیکن انھیں سوچنا ہوگا کہ بیت المقدس شیعہ یا سنی کا نہیں، بلکہ تمام مسلمانوں کا قبلہ اول ہے، اور اس کی آزادی کے لئے کوشش و جدوجہد ہم سب کا مذہبی فریضہ ہے۔