پاکستان کی موجودہ حکومت نے 15ارب ڈالر قرضہ لیا/ ترسیلات کے معاملے میں سعودی عرب پر انحصار نہیں کیا جاسکتا
پاکستان کے ممتاز ماہر اقتصادیات کا کہنا ہے کہ قرضہ دیتے وقت آئی ایم ایف کی شرط ہی یہ ہوتی ہے کہ قرضے کی رقم ترقیاتی کاموں پر خرچ نہیں کی جائے گی، بنیادی نکتہ یہ ہے کہ آئی ایم ایف کے قرضوں سے عوام کو فائدہ نہیں الٹا نقصان ہوتا ہے، لہذا قرضوں کے بوجھ کو عوام کے ٹیکسوں سے پورا کیا جا رہا ہے، جس کے نتیجے میں مہنگائی اور درآمدات بڑھ رہی ہیں،
خبر رساں ادارے تسنیم کے نمائندے سے پاکستان کی معیشت کو درپیش چیلنجز پر بات کرتے ہوئے پاکستان کے ممتاز ماہر اقتصادیات ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے کہا کہ "پاکستان کی معیشت کو خوفناک خطرہ تجارتی خسارے سے ہے، جو بتیس ارب امریکی ڈالر سالانہ ہے، اس پر مستزاد یہ خسارہ سمندر پار مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی گئی ترسیلات زر سے پورا کیا جارہا ہے، جس کا چوہتر فیصد حصہ سعودی عرب، قطر، عمان اور متحدہ عرب امارات پر منحصر ہے، سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک کے اندرونی حالات کی وجہ سے ترسیلات کسی بھی وقت کم ہوسکتی ہیں، لہذا ترسیلات زر پر انحصار غلط ہے، تجارتی خسارہ جاری کھاتوں کے خسارے سے زیادہ پریشان کُن ہے، جاری کھاتوں کے خسارے پر تو قابو پایا جاسکتا ہے، لیکن تجارتی خسارہ بے قابو ہے، جس ملکی میعشت میں خرابیاں پیدا ہورہی ہیں۔"
گرتی برآمدات اور بڑھتی درآمدات پر بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ "بدقسمتی سے پاکستان میں برآمدات مسلسل کمی سے دوچار ہیں، اس کے برعکس درآمدی مالیت تواتر سے بڑھ رہی ہے، رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران بیرونی تجارت میں پاکستان کو نو ارب ڈالر خسارہ ہوا، رواں سال جولائی سے ستمبر کے دوران چودہ ارب چھبیس کروڑ ڈالر کی اشیا درامد کی گئیں، جبکہ برآمدی حجم صرف پانچ ارب سترہ کروڑ ڈالر رہا، اس طرح درآمدات میں اضافہ نہ صرف زرمبادلہ کے ذخائر پر اثرانداز ہو رہا ہے بلکہ پاکستانی کرنسی پر بھی اس کے منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔"
پاکستان کی موجودہ معاشی صورتحال کو کس طرح دیکھتے ہیں کے سوال کے جواب میں ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے کہا کہ "یہ درست ہے کہ پاکستان کی اقتصادی صورتحال کافی مشکلات سے دوچار ہے، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ معیشت تباہی کے قریب ہے، یا پاکستان بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے قرضہ لے گا، ایسا کچھ نہیں ہونے والا، ملکی اور غیرملکی سطح پر خدشات موجود ہیں، لہذا معاشی بہتری کے لئے مرکزی بینک، وفاق اور صوبوں کو اپنی ذمہ داریاں ادا کرنا ہوں گی، پہلی سہ ماہی میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ دو ارب ڈالر سے زائد ہے، لیکن یہ اتنا زیادہ نہیں کہ معیشت کے لئے قیاس آرائیاں کی جائیں، سال دوہزار آٹھ میں جنرل پرویز مشرف کے دور میں یہ خسارہ مجموعی قومی پیداوار کے آٹھ فیصد کے برابر تھا، جو آج گھٹ کر صرف چار فیصد رہ گیا، لیکن میرا کہنا یہی ہے کہ اس پر بس نہ کیا جائے مزید کمی کی ضرورت ہے۔"
پاکستان پر اربوں ڈالر کے غیرملکی قرضوں کا بوجھ ہے، لیکن یہ قرضے فاٹا اور بلوچستان کے عوام کی بہتری پر خرچ نہیں کئے جارہے، یہ قرضہ کہاں استعمال ہورہا ہے، کے جواب میں اقتصادی ماہر نے کہا کہ "مسلم لیگ نون کی موجودہ حکومت کے ساڑھے چار سال میں غیرملکی قرضوں میں پندرہ ارب ڈالر اضافہ ہوا، اور اس کا بڑا حصہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے حاصل کیاگیا، قرضہ دیتے وقت آئی ایم ایف کی شرط ہی یہ ہوتی ہے کہ قرضے کی رقم ترقیاتی کاموں پر خرچ نہیں کی جائے گی، بنیادی نکتہ یہ ہے کہ آئی ایم ایف کے قرضوں سے عوام کو فائدہ نہیں الٹا نقصان ہوتا ہے، لہذا قرضوں کے بوجھ کو عوام کے ٹیکسوں سے پورا کیا جا رہا ہے، جس کے نتیجے میں مہنگائی اور درامدات بڑھ رہی ہیں، اگر یہ قرضے پیداواری مقاصد کے لئے استعمال کئے جاتے تو معیشت ترقی کرتی، لیکن جس طریقے سے ہم قرضے لے رہے ہیں، اس سے معیشت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں، عوام اور معیشت کو فائدہ نہیں ہورہا، جب تک اقتصادی پالیسیاں تبدیل نہیں ہوں گی، مسائل بدستور موجود رہیں گے۔"
چوبیس ارب پچاس کروڑ امریکی ڈالر کی تاریخی بلندی کے بعد زرمبادلہ کے ذخائر اٹھارہ ارب پر کیسے آئے کے سوال کے جواب میں ماہر معاشیات ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے کہا کہ "اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے پاس اس وقت ساڑھے تیرہ ارب ڈالر ہیں، جبکہ کمرشل بینکوں کے پاس زخائر کی مالیت ساڑھے چار ارب ڈالر ہے، گذشتہ دنوں ذخائر کی مالیت تاریخ کی بلند ترین سطح یعنی پچیس ارب ڈالر کے قریب تھے، لیکن میں یہ بتاتا چلوں کہ ذخائر میں اضافہ برآمدات کے طفیل نہیں، بلکہ غیرملکی قرضوں اور امداد سے ہوا، اس دوران نہ ہی سرکاری اداروں کی نجکاری ہوئی اور نہ ہی برامدات میں خاطر خواہ اضافہ ہوا، لہذا ترسیلات اور قرضوں سے ذخائر کا ڈھیر بڑھایا گیا، اب جبکہ قرضوں کی واپسی کی جارہی ہے، عالمی مارکیٹ میں جاری کئے گئے بانڈز کی ادائیگی ہورہی ہے، تو ذخائر گھٹنا شروع ہوگئے ہیں، جس سے پاکستانی روپیہ بھی دباؤ کا شکار ہے، اگر یہ سلسلہ سی طرح جارہی رہا تو خدشہ ہے کہ ڈالر کی قیمت میں مزید اضافہ ہوگا۔"
معاشی بدحالی کا ذمہ دار کون ہے، کے جواب میں ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے کہا کہ "اس تمام صورتحال کا کوئی ایک نہیں بلکہ وفاق اور صوبے سب ہی ذمہ دار ہیں، کسی نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی، برآمدات اور ٹیکس وصولی میں کمی پر سب خاموش ہیں، ساتویں قومی مالیاتی کمیشن اور اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کو زیادہ اختیارات اور وسائل دیئے گئے، لیکن وہ کارکردگی سامنے نہ آسکی، جس کی معیشت کو ضرورت تھی۔"
فیڈڑل بورڈ آف ریونیو کی جانب سے سات سو اکتیس اشیا پر اچانک ریگولیٹری ڈیوٹی کے نفاذ کا فیصلہ کیسا ہے، کے جواب میں ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے کہا کہ "کسی بھی چیز پر جب درآمدی ڈیوٹی لگتی ہے تو اس کی لاگت میں اضافہ ہوجاتا ہے، حکومت کے اس اقدام سے ایک طرف مہنگائی بڑھے گی، دوسری جانب اسمگلنگ اور انڈر انوائسنگ کو فروغ ملے گا، یعنی ٹیکس بچانے کے لئے سو روپے کی چیز نوے روپے کی بتائی جائے گی، اس سے بہتر یہ ہوتا کہ ٹیکس چوری روکنے کے لئے قوانین سخت کئے جاتے، بجلی، گیس اور پیٹرول کی قیمتیں کم کی جاتیں تاکہ لاگت پیداوار میں کمی کے نتجے میں روزگار اور برآمدات دونوں میں اضافہ ہوتا اور عوام کو فائدہ ہوتا۔ اس کے برعکس ٹیکس چوری کا نقصان پورا کرنے کے لئے یوٹیلٹی اشیا کی قیمتیں بڑھانا حکومت نے آمدنی کا آسان نسخہ بنا رکھا ہے، طاقت ور طبقوں کے مفادات کے تحفظ کے لئے ٹیکس پالیسی پر نظرثانی نہیں کی جاتی، اگر ٹیکس اصلاحات کی جائیں تو معاشی بہتری ممکن ہے۔"