بالفور اعلامیہ کاجاری ہونا برطانیہ کی فلسطین کے عوام کے خلاف فریب کارانہ چال بازی
شیخ عکرمہ کا کہنا تھا کہ فلسطینی اور غیر فلسطینی مسمانوں کو اجازت دی جائے کہ وہ کانفرنسز کا انعقاد کرکے بالفور اعلامیہ کی مذمت کے ساتھ ساتھ برطانیہ کے فلسطینی عوام کے خلاف جرائم کو بھی دنیا کے سامنے بے نقاب کریں۔
رھبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ خامنہ ای مدظلہ العالی نے مختلف مناسبتوں پر اپنے مسلسل بیانات میں مسئلہ فلسطین کو فراموش نہ کرنے اور عالم اسلام کےلیے مہم ترین مسئلہ ہونے کی تاکید کرتے رہیں ہیں۔ مقبوضہ فلسطین کی سرزمین پر قبضے کے متعلق ایک اہم حصہ 2نومبر 1917 کا دن ہےکہ جب برطانیہ کی اس وقت کی حکومت فلسطین کی سرزمین پر یہودیوں کے لیے ایک ملک بنانے کی حمایت میں ایک اعلامیہ صادر کرتی ہے اور فلسطین پر قبضے کی بنیاد کا آغاز کرتی ہے، اس حوالے سے خبر رساں ادارے تسنیم نے بالفور اعلامیہ کی دو نومبر کے روز سویں سالگرہ کے موقعہ پر مسجد الاقصی کے خطیب شیخ عکرمہ صبری سے گفتگو کی ہے جو پیش خدمت ہے؛
شیخ عکرمہ صبری نے صہیونیوں کی جانب سے فلسطین پر قبضے اور اس اقدام کے پس پردہ عوامل کے بارے میں تاریخی شواہد کی بنیاد پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اس واقعے میں پہلے بالفور معاہدے کے بارے میں اشارہ کرتا ہوں، یہ معاہدہ جو برطانیہ کی طرف سے صادر ہوا اور در حقیقت اس کو فلسطین کے عوام کے خلاف دھوکہ اور چال بازی شمار کیا جاتا ہے، برطانیہ اور یہودیوں کے گٹھ جوڑکی وجہ سے یہ اعلامیہ سرزمین فلسطین پر یہودیوں کے آباد ہونے کا موجب بنا اور اس وقت سے لیکر آج تک اس منحوس معاہدے کے نتائج فلسطین کی ملت بھگت رہی ہے یہ ایسی صورت حال میں ہےکہ فلسطینیوں کے علاوہ مشرق وسطیٰ کے عرب ممالک اور پورا عالم اسلام اس اعلامیہ کی وجہ سے طرح طرح کے مصائب سے دوچار ہیں۔
مسجد الاقصی کے امام نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اس اعلامیہ کو سو سال ہو چکے ہیں اور برطانیہ کی استعماری اور مجرم حکومت کو چاہیے کہ اس معاہدے کے جاری کرنے پر معافی مانگے اور اسی طرح فلسطینیوں کے ساتھ ساتھ سب کو اجازت دی جائےکہ وہ کانفرنسوں میں اس اعلامیہ کی مذمت کرنے کے علاوہ جس جرم کا برطانیہ نے فلسطین کے لوگوں کے حق میں ارتکاب کیا ہے، اس کو بھی دنیا کے سامنے وضاحت کے ساتھ بیان کریں۔
مسجد الاقصی کےخطیب نے گفتگو کے دوران عالمی عدالتوں میں مقدس سرزمین پر غاصب صہیونی ریاست کے قبضےکے عوامل کو سزا دلوانے کیلئے جو کیس دائر ہے، کے بارے میں وضاحت کی کہ یہ بعید ہے کہ عالمی عدالتوں میں ان گروہوں کے ٹرائل سے قابل قبول نفع اور نتائج برآمد ہوں کیونکہ یہودی حکومت ثابت قدم ہے اور معذرت خواہی کے صرف معنوی فوائد ہیں اور برطانیہ نے فلسطینی قوم کے حق میں غلطی کی ہے اور اس کا غلطی کے اعتراف کا کوئی ارادہ بھی نہیں ہے اور اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ برطانیہ بھی عرب اور مسلمانوں کا دشمن ہے۔
انہوں نے قومی وحدت کے حوالے سے کئے گئے معاہدوں کے تحت فلسطین کے مختلف گروہوں کے اتحاد اور ہمدلی کے ذریعے صہیونیوں کا مقابلہ کرنے کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ ہم ہر قسم کے معاہدے کو قبول کرتے ہیں اور اس کی تائید بھی کرتے ہیں۔ ہم نے اس سے پہلے بھی وفاق ملی کی درخواست کے علاوہ فلسطینیوں کے درمیان اختلافات ختم کرنے اور اسی طرح مسلمانوں، عربوں اور پوری دنیا کو اتحاد کی طرف دعوت دی تھی کیونکہ ان اختلافات کے ہم پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور فضا اسرائیل کے لیے سازگار ہو رہی ہے تاکہ وہ قدس اور الاقصی کے بارے میں اپنے عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچائے۔
شیخ عکرمہ صبری نے مزید کہا کہ ہم فلسطین میں امن و صلح چاہتے ہیں کیونکہ یہ ہمارے فائدے اور اسرائیل کے نقصان میں ہے اور علماء بھی اپنے وظیفے پر عمل کریں اور اپنی قوم و ملت کے ساتھ رہیں تاکہ ایسی صورت میں ان کی ہدایت و رہبری کر سکیں اور اس دور میں ہم علماء سے چاہتے ہیں کہ وہ جرات کا مظاہرہ کریں اور حق کو بیان کریں نہ کہ منافقانہ رویہ اختیار کریں۔
انہوں نےگفتگو کے اختتام پر عراق کے شمال میں کردستان کی علیحدگی کے ذریعے اسرائیل دوم کے قیام کے بارے میں کہا کہ ہم علیحدگی کے مخالف ہیں اور عربی اور اسلامی وحدت چاہتے ہیں، وحدت و اتحاد ہم سب کا وظیفہ ہے جب ہم متحد ہوں گے تو کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔ کردوں کو بھی اپنی زبان اور رسوم و اداب کی محافظت کا حق رکھتے ہیں لیکن ان کو چاہئے کہ اپنے ملکی ڈھانچے سے جدا نہ ہوں، کردوں کو شام، عراق، ایران اور ترکی میں حقوق حاصل کرنے کی ممانعت نہیں ہے اور ہر ملک میں اقلیتوں اعم از شیعہ سنی کے حقوق کی حفاظت ہونی چاہیے۔