آل سعود کا خاندانی پس منظر؛ یہودیت سے سعودیت تک کا سفر (حصہ دوئم)
1960 میں مصر کے دارالحکومت قاہرہ کے ریڈیو اسٹیشن «صوت العرب» اور یمن کے دارالحکومت صنعا کے ریڈیو اسٹیشن نے اس بات کی تصدیق کی کہ آل سعود کے آباء و اجداد یہودی تھے جبکہ خود سعودی بادشاہ شاہ فیصل نے بھی 17 ستمبر 1969 کو واشنگٹن پوسٹ کو دئے گئے ایک انٹرویو میں تسلیم کیا کہ اس کے آباء و اجداد یہودی تھے۔
خبر رساں ادارہ تسنیم: قارئین کرام ہم نے گذشتہ کالم میں آل سعود کا پس منظر اور ان کے جرائم پر مشتمل داستان کو نہایت ہی اختصار کے ساتھ عرض کیا تھا کہ یہ خاندان کس طرح آکر حجاز مقدس پر قابض ہوا اور انہوں نے اپنی حکومت کی بنیاد میں نہ جانے کتنے بے گناہوں کا خون شامل کیا، آج اس سلسلہ کی دوسری کڑی ہے لہذا گذشتہ کالم کے لئے اس لنک پر کلک کیجئے!
آل سعود کا خاندانی پس منظر؛ یہودیت سے سعودیت تک کا سفر (حصہ اول)
گذشتہ سے پیوستہ: سعود کی اولاد نے اس کے بعد عرب قبائل کے چیدہ چیدہ افراد کو قتل کرنا شروع کردیا اور ان پر الزام یہ لگایا کہ یہ لوگ قرآنی تعلیمات سے رو گرداں ہوگئےہیں، لہٰذا اسلامی قوانین کے تحت یہ مرتد ہیں اور مرتد کی سزا موت ہے، سعودی خاندان یا آل سعود کے اپنے درباریوں کے مطابق اور سعودیوں کے نزدیک اس وقت کے نجد کے تمام لوگ گستاخان اسلام تھے، لہٰذا ان سب کو قتل کر دینا چاہیئے، ان کی جائیدادوں کو ضبط کرلینا اور ان کی عورتوں کو لونڈیاں بنا لینا جائز ہے، ان کے نزدیک وہ شخص جو محمد بن عبدالوہاب (اس کے آباء و اجداد بھی ترکی کے یہودی تھے) کے عقیدے سے متفق نہیں ہیں، وہ دائرہ اسلام سے خارج ہیں، محمد بن عبد الوہاب کی تعلیمات کے مطابق سعودی خاندان کو اس امر کی اجازت تھی کہ وہ اپنے مخالفین کے دیہاتوں کو مسمار کریں، ان کی عورتوں اور بچوں کا قتل عام کریں ان کی خواتین کی عصمت دری کریں، حاملہ عورتوں کے پیٹ چاک کرکے ان کے بچوں کے ہاتھ کاٹ دیں اور پھر انہیں زندہ جلادیں، اس وحشی خاندان نے عملاً اس مذہب (وہابیت) کے نام پر یہ تمام جرائم کئے، عقیدہ وہابیت جو حقیقت میں ایک یہودی کی تخلیق تھا اور جس کا مقصد مسلمانوں کے اندر انتہا پسندی اور دہشت گردی اور فرقہ واریت کے بیج بونا تھا، اس کے پیروکاروں نے 1163 ہجری سے آج تک قتل و غارت کا ایک بازار گرم کیا ہوا ہے، آل سعود کا اسلامی تاریخ کے ساتھ ایک اور ظلم یہ کہ اس نے حجاز کا نام بھی تبدیل کرکے اپنے خاندانی نام پر سعودی عرب رکھ دیا، گویا یہ تمام خطہ ان کی ذاتی ملکیت ہے اور اس کے باشندے ان کے ذاتی غلام ہیں، اپنے آقاؤں کی خوشنودی کے لئے شب و روز ایک کئے ہوئے ہیں، سعودی خاندان اس ملک کے تمام قدرتی وسائل کو اپنی ذاتی جائیداد سمجھتے ہیں، اگر کوئی عام شخص اس خاندان کے کسی فرد کے خلاف آواز اٹھائے تو سر عام اس کا سر قلم کر دیا جاتا ہے، ایک دفعہ ایک سعودی شہزادی نے اپنے مصاحبوں کے ساتھ امریکہ کا دورہ کیا، جہاں فلوریڈا کے ایک ہوٹل میں اس نے 90 کمرے بک کرائے جن کا ایک رات کا کرایہ ایک ملین ڈالر تھا، کیا کوئی سعودی شہری دولت کے اس اصراف پر زبان سے ایک لفظ بھی کہہ سکتا ہے؟ اگر کہے گا تو اس کا انجام ہر کوئی جانتا ہے، یعنی کسی چوراہے پر سب کے سامنے جلاد کے ہاتھوں اس کے سر کو تن سے جدا کردیا جائےگا۔
آل سعود کے یہودی النسل ہونے کے گواہ
1960 میں مصر کے دارالحکومت قاہرہ کے ریڈیو اسٹیشن «صوت العرب» اور یمن کے دارالحکومت صنعا کے ریڈیو اسٹیشن نے اس بات کی تصدیق کی کہ آل سعود کے آباء و اجداد یہودی تھے جبکہ خود سعودی بادشاہ شاہ فیصل نے بھی 17 ستمبر 1969 کو واشنگٹن پوسٹ کو دئے گئے ایک انٹرویو میں تسلیم کیا کہ اس کے آباء و اجداد یہودی تھے۔
آل سعود کے ایک قانونی مشیرحافظ واہی نے جزیرۃ العرب کے نام سے اپنی ایک کتاب میں لکھا ہے کہ شاہ عبد العزیز السعود ۔ جس کا انتقال 1953ء میں ہوا تھا۔ نے ایک دفعہ ایک واقعہ سنایا اور کہا کہ ہمارے تمام مخالف قبیلوں کے لئے اس واقعے میں ایک عبرت کا سامان ہے، واقعہ یہ ہے کہ میرے دادا سعود اول نے ایک دفعہ اپنے مخالف قبیلہ مثیر کے کئی افراد کو گرفتار کرلیا اور جب اسی قبیلے کے افراد کا ایک گروہ ان کے پاس ان لوگوں کی رہائی کی سفارش لے کر آیا تو اپنے جلادوں کو حکم دیا کہ وہ ان تمام قیدیوں کے سر کاٹ دے، پھر اس نے ان قیدیوں کی سفارش کےلئے آنے والے لوگوں سے کہا کہ میں نے آپ کے لیے ایک عمدہ ضیافت کا اہتمام کیا ہے، چنانچہ دستر خوان بچھایا گیا اور دستر خوان پر جو طشت رکھے گئے ان میں ان قیدیوں کے جسموں کے بھنے ہوئے اعضاء اور ان کے اوپر ان قیدیوں کے سروں کو سجا کر رکھا گیا تھا، سعود اول نے سفارش کے لئے آنے والے ان قبائلیوں کو کہا کہ کھانا تناول فرمائیں، قبائیلیوں نے اپنے بھائیوں کا گوشت کھانے سے انکار کردیا تو انہیں بھی موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، یہ اور اس طر ح کے کئی مظالم ہیں جو آل سعود نے ان لوگوں کے ساتھ کئے ہیں جنہوں نے ان کی ناجائز حکمرانی کے خلاف ذرا بھی آواز اٹھائی۔
حافظ واہی نے اس طرح کا ایک اور واقعہ تحریر کیا ہے کہ جب اسی قبیلے کے سردار فیصل الدرویش کو گرفتار کیا گیا تو قبیلے کے سرکردہ شیوخ اپنے سردار کی رہائی کی سفارش لے کر سعود اول کے پاس آئے، بادشاہ نے ان شیوخ کو انہی کی طرح پہلے آنے والے سفارشیوں کے گروہ کی داستان عبرت سنائی اور ان سے کہا کہ تمہارے ساتھ بھی یہی سلوک ہو سکتا ہے، بادشاہ نے فیصل الدرویش کو ان کی سفارش کے باوجود قتل کردیا اور جب یہ لوگ نماز کی ادائیگی کی تیاری کرنے لگے تو انہیں وضو کے لئے فیصل الدرویش کا خون پیش کیا گیا، فیصل الدرویش کا جرم یہ تھا کہ اس نے عبدالعزیز السعود کے انگریزوں کے ساتھ اس معاہدے پر تنقید کی تھی جس کے تحت فلسطین کو یہودیوں کے سپرد کر دیا گیا تھا، سعود اول نے اس معاہدے کی دستاویزات پر دستخط 1922ء میں AL ager میں ہونے والی ایک کانفرنس میں کئےتھے، یہ وہ تمام تصدیق شدہ حقائق ہیں جو صفحہ تاریخ پر محفوظ ہیں، آل سعود نے وہابیت کی چھتری تلے جن جرائم کا ارتکاب کیا ہے وہ دل دہلا دینے والے ہیں، آل سعود لاکھ اپنی اصلیت کو چھپائیں لیکن ان کے یہ جرائم ان کے چہرے سے نقاب اتارنے کے لیے کافی ہیں، ایک نہ ایک دن بہرحال انہیں اس کا حساب دینا ہے۔
ترجمہ: فاروق طارق
نوٹ: زیر نظر مضمون مصنف نے اپنے نقطہ نظر سے لکھا ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا نقطہ نظر پاکستان اور دنیا بھر میں پھیلے، تو قلم اٹھائیں اور اپنے ہی الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، سوشل میڈیا آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ ہمیں ای میل کریں ای میل ایڈریس: tasnimnewsurdu@gmail.com آپ اپنے بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنک بھی بھیج سکتے ہیں۔