مقبوضہ فلسطین ۔۔صیہونی دررندگی اور صحافتی حقوق کی پامالیاں


مقبوضہ فلسطین ۔۔صیہونی دررندگی اور صحافتی حقوق کی پامالیاں

مقبوضہ فلسطین کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو اندازہ ہوتا ہے کہ غاصب اسرائیل نے یہاں گذشتہ ستر برس میں انسانیت کی اقدار کو پامال کرنے کی کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔

خبر رساں ادارہ تسنیم: بچوں، خواتین، نوجوانوں اور بزرگوں سمیت کوئی بھی صیہونی دشمن کے مظالم سے محفوظ نہیں رہاہے۔اگر اداروں کی بات کی جائے تو فلسطینی عوام کی مددپر مامور اداروں او ران سے تعلق رکھنے والے افراد بھی صیہونی مظالم کا شکار بنتے چلے آئے ہیں ، جیسا کہ حال ہی میں ایک مثال پیرا میڈیکل اسٹاف سے تعلق رکھنے والی ایک معصوم نوجوان فلسطینی لڑکی کی غاصب صیہونی افواج کے ہاتھوں شہادت ہے، رزان النجار کاجرم یہ تھاکہ وہ فلسطینی تھی اور انسانی ہمدردی کا کام انجام دے رہی تھی۔اسی طرح ماضی کی متعدد مثالوں میں سے ایک امریکی نوجوان رضا کار راشیل کوری کی صیہونیوں کے ہاتھو ں بیہمانہ شہادت ہے جو فقط فلسطینیوں کے گھروں کی مسماری کے خلاف احتجاج کر رہی تھی اور اس پرایک اسرائیلی بلڈوزرچڑھ دوڑا جس کے نتیجہ میں اس کی شہادت ہوئی۔خلاصہ یہ ہے کہ جس روز سے غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کا ناپا ک وجوسرزمین فلسطین پر قابض ہوا ہے اس دن سے روزانہ ہی فلسطین کے باسیوں کے حقوق کی پامالیوں کا سلسلہ جاری ہے اور ان حقوق کی خلاف ورزی پر اگر اقوام متحدہ نامی ادارے میں کوئی قرار دادپیش ہوجائے تو غاصب اور جعلی ریاست اسرائیل کا سرپرست امریکہ اسے ویٹو کر دیتا ہے۔غاصب صیہونی ریاست اسرائیل مقبوضہ فلسطین کے باشندوں، بین الاقوامی رضاکاروں،انسانی حقوق اداروں اورکارکنوں، غرض زندگی کے تمام شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے انسان دوستوں کے خلاف سنگین جنگی جرائم کا مرتکب ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی اور بنیادی حقوق سمیت شعبہ جاتی حقوق کی سنگین پامالیو ں کا مرتکب بھی ہوا ہے۔ایسے ہی جرائم اور حقوق کی پامالیوں کا ارتکاب فلسطین میں سرگرم عمل صحافی برادری کے خلاف بھی جاری ہے،اس عنوان سے ایک برطانوی فوٹو گرافر ٹام کو فلسطین کی تاریخ میں سنہرے حروف میں یادکیا جاتا ہے کہ جس کو اسرائیلی مظالم اپنے فن کی مدد سے آشکار کرنے کے جرم میں صیہونی افواج نے اپنی درندگی کا نشانہ بنا کر شہید کر دیا تھا۔

غاصب صیہونی ریاست اسرائیل ہمیشہ سے ہی فلسطینیوں کے بنیادی حقوق کا قاتل رہا ہے یہاں تک کہ فلسطینی عوام کو ان کے گھروں اور زمینوں سے جبری طور پر بے دخل کر کے فلسطینیوں کا حق زندگی اور حق رہائش تک ان سے چھین لیا گیا ہے، بہر حال اس مقالہ میں چونکہ صحافتی حقوق کی پامالیوں کی بات کرنا مقصود ہے تو حالیہ دنوں ہی جب سے فلسطینیوں نے اپنے حق واپسی وطن کی خاطر آواز بلند کی ہے اور اسرائیل کی بنائی گئی ناجائز سرحدوں اور حدودوں کو ماننے سے انکار کیا ہے اور اس کے نتیجہ میں غزہ اور مغربی کنارہ میں فلسطینیوں کے حق واپسی مارچ کی مہم شروع ہوئی ہے تو اس مہم کو دبانے کے لئے جہاں اسرائیل کی غاصب جعلی ریاست نے فلسطینیوں کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنا کر دو سو سے زائد لوگوں کو شہید جبکہ دسیوں ہزار کے قریب زخمی کئے ہیں اور ان مظالم کو دنیاکے سامنے لانے والی صحافی برادری نے جب ان انسانیت سوز مظالم کو کیمروں کی آنکھ میں ضبط کیا ہے تو غاصب اسرائیل نے صحافتی حقوق کی کھلم کھلا دھجیاں بکھیرتے ہوئے صحافتی برداری پر پابندیاں عائد کر دی ہیں کہ وہ فلسطینیوں کے حق واپسی سے متعلق کسی قسم کی کوئی کوریج نہ کریں۔

یہ تو فقط بات تھی کہ صحافی برداری کو ان کی پیشہ وارانہ خدمات سے روکنے کی جبکہ دوسری طرف ایسی درجنوں مثالیں موجود ہیں کہ جس میں غاصب اسرائیلی افواج کی جانب سے صحافیوں پر بہیمانہ تشدد اور ان کو براہ راست گولیوں کا نشانہ بنانا، حتیٰ صحافیوں کے جھنڈ جو اپنی پیشہ وارانہ سرگرمیوں کے لئے کسی ایک پروگرام کے مقام پر جمع ہوں ان پر ڈرون طیاروں کی مدد سے خطر ناک قسم کی جان لیوا گیسوں کے گولے پھینکنا اور اس طرح کے دیگر اوچھے ہتھکنڈوں کا استعمال کر کے ایک طرف صحافیوں کے خلاف سنگین جنگی جرائم کا ارتکاب کرنا اور دوسری طرف صحافتی حقوق کی پامالی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

فلسطین میں ابلاغی آزادیوں کے حوالے سے کام کرنے والے گروپ نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ جون 2018ء میں غاصب صہیونی فوج نے فلسطینی علاقوں میں صحافتی آزادیوں اور ابلاغی حقوق کی 62 خلاف ورزیاں کی ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جون میں غاصب صیہونی فوج کے ہاتھوں صحافتی حقوق کی پامالیوں کے واقعات میں غیرمعمولی اضافہ دیکھنے میں آیا۔ اس سے قبل مئی میں صحافتی حقوق کی پامالیوں کے 29 واقعات کا اندراج کیا گیا تھا۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گذشتہ مہینے غاصب صیہونی فوج کی طرف سے 13 خواتین صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ان میں سے 8 خاتون صحافی کارکنوں کو فلسطینی اتھارٹی اور پانچ کو اسرائیلی فوج کی طرف سے انتقامی کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ گذشتہ ماہ اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے چار صحافی زخمی ہوئے تھے۔

فلسطینیوں کے حقوق بالخصوص صھافتی برادری کے حقوق کا دفاع کرنے والی ایک Journalist Support Committeeنے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں فلسطین میں صحافی برادری کی پیشہ وارانہ سرگرمیوں کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے اور صحافیوں کو صیہونی دردنگی کا نشانہ بنانے کے واقعات میں اضافہ کو سنگین اور خطر ناک قرار دیتے ہوئے عالمی برادری او ر انسانی حقوق کے عالمی اداری ایمنسٹی انٹر نیشنل کی توجہ مبذول کروائی ہے اور بتایا ہے کہ غاصب صیہونی افواج فلسطین کے مختلف علاقوں میں ایسے صحافیوں کو اپنی درندگی کا نشانہ بنا رہے ہیں جو اپنی پیشہ وارانہ سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔کمیٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غاصب اسرائیلی افواج نہ صرف موقع پر صحافیوں کو زد و کوب اور تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں بلکہ صحافیوں کو ان کی پیشہ وارانہ سرگرمیاں انجام دینے کے جرم میں گرفتار بھی کیا جا رہاہے اور جیلوں میں رکھ کر ان کے ساتھ شدید قسم کے ذہنی دباؤ اور جسمانی سزائیں دی جا رہی ہیں جبکہ متعدد صحافیوں کو فلسطین سے جبری طور پر جلا وطن بھی کیا گیا ہے۔

حالیہ واقعات میں غاصب صیہونی افواج کے ہاتھوں نشانہ بننے والے ایک سو صحافیوں کی فہرست جاری کرتے ہوئے Journalist Support Committee نے بتایا ہے کہ 56صحافیوں کو اسرائیلی افواج کی جانب سے گرنیڈ حملوں میں زخمی کیا گیا ہے جبکہ ایک صحافی کارکن براہ راست گولی کا نشانہ بنتے ہوئے زخمی ہو اہے، اسی طرح 12مزید صحافی ربڑ کی بنی میٹل بلٹ سے نشانہ بنائے گئے ہیں جو شدید زخمی ہوئے ہیں۔زخمی ہونے والے اٹھائیس صحافی کارکنان غاصب صیہونی افواج کی جانب سے ڈرون طیاروں سے پھیکے جانے والے زہریلی گیس کے بموں کا نشانہ بنے ہیں ۔تین صحافی ایسے بھی ہیں کہ جن کے چہرے پر غاصب صیہونی فوجیوں نے اسپرے پھینک کر ان کو زخمی کیا ہے۔

فلسطین کے مختلف شہروں میں القدس کی حمایت اور امریکی صدر کے القدس شہر کے خلاف کئے جانیو الے اقدامات کے خلاف ہونے والے مظاہرو ں کی کوریج کرنے پر مامور صحافی کارکنوں کو صیہونی دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔القدس شہر میں غاصب صیہونیوں کی جانب سے صحافیوں کے حقوق کی پامالی کے 53 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں اسی طرح دیگر شہروں میں بشمول بیت الحم میں تین واقعات، نابلس میں ایک واقعہ ، تباس، طولکرم اور قلقیلیہ میں بھی ایک ایک اور دو دو واقعات رپورٹ ہوئے ہیں ۔ان واقعات میں بیس خواتین صحافی کارکان صیہونی تشدد کا نشانہ بنی ہیں کہ جن کو براہ راست صیہونی فوجیوں کی جانب سے لاتوں ، گھونسوں اور گرنیڈ بموں اور زہریلی گیس بموں سمیت ربڑ کی گولیوں کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ امریکہ جوکہ اسرائیل کی جعلی ریاست کی سرپرستی کر رہا ہے اور دنیا میں انسانی حقوق کے تحفظ کا نعرہ بھی لگاتا ہے لیکن اب امریکی چہرہ اور مکروہ عزائم دنیا پر کھل کر سامنے آ رہے ہیں کیونکہ جب ان مظالم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی باز گشت اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کونسل میں اٹھائی گئیں تو امریکہ کی جانب سے اسرائیل کی مذمت یا اسرائیل کیخلاف کوئی اقدام اٹھانے کی بجائے امریکہ نے خود کو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل سے علیحدہ کر کے ثابت کر دیا ہے کہ فلسطین کی مقبوضہ سرزمین پر ہونے والی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں جعلی ریاست اسرائیل کے ساتھ ساتھ شیطان بزرگ امریکہ بھی برابر کا شریک جرم ہے۔عالمی برادری کو اب یہ سوچنا ہو گا کہ غاصب جعلی ریاست اسرائیل کے ناپاک اور انسانیت دشمن عزائم کو روکنے کے لئے اگر ااج سنجیدہ اقدامات نہ اٹھائے گئے تو آنے والا وقت غاصب جعلی ریاست اسرائیل کو مزید خونخوار بناتا چلا جائے گااور مظلوم انسانوں کا لہو جہاں امریکہ اور اسرائیل کی گردن پر ہو گا وہاں عالمی برادری کی خاموشی کے باعث اسے بھی اسی صف میں لا کھڑا کرے گا۔

تحریر:صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری