اشرف غنی کی اہلیہ کا اسرائیلی چینل کو انٹرویو؛ دین کو تبدیل کرنا ضروری نہیں/ پشتونوں کی حمایت کامیابی کیلئے کافی ہے
افغانستان کی خاتون اول نے اس بیان کیساتھ کہ اشرف غنی کیساتھ شادی کے بعد مسیحیت سے دائرہ اسلام میں داخل ہونے کی ضرورت محسوس نہیں کرتی، کہا کہ اگر کسی کو پشتونوں کی حمایت حاصل ہو تو وہ الیکشن میں آسانی سے کامیاب ہوسکتا ہے۔
خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق افغانستان کی خاتون اول "رولا غنی" نے "بریکنگ اسرائیل نیوز" کو انٹرویو میں اپنے عیسائی اور لبنانی ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اپنے دین کو تبدیل کئے بغیر اشرف غنی سے شادی کرلی اور اس حوالے سے بہت خوش ہوں، مسلمانوں کے نزدیک محترم ہونے کیلئے دین کی تبدیلی کی ضرورت نہیں ہوتی۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ افغان عوام کیلئے تمام قومی اور بین الاقوامی قوانین کا احترام کرتی ہے اور یہ کہ ان کے بارے میں لوگ کیا کہہ رہے ہیں، کوئی اہمیت نہیں دیتی۔
افغان صدر کی اہلیہ نے ایک سوال کے جواب میں اس ملک کی جمہوریت اور آزادی کے حوالے سے کہا: "افغان عوام ابھی تک جمہوریت کے دائرے میں داخل نہیں ہوپائے ہیں اور اپنی روایتی زندگی بسر کررہے ہیں، افغانستان میں آزادی کا مفہوم زیادہ عمیق نہیں ہے اور عوام مذہبی اور قومی حدود میں زندگی کررہے ہیں اور ان اختلافات سے نکلنے کیلئے ان کو جمہوریت کی اشد ضرورت ہے۔"
رولا غنی نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے مزید کہا؛ "افغانستان کے اعلیٰ مذہبی و سیاسی شخصیات عوام کی پیشرفت میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور مجھے امید ہے کہ کم سے کم مدت میں یہ رکاوٹیں دور کی جائیں گی اگرچہ ان رکاوٹوں کو ہٹانا بہت مشکل اور ناممکن نظر آتا ہے۔"
رولا غنی جنہوں نے اپنے الیکٹرونیک پاسپورٹ میں اپنا دین اسلام اور قوم پشتون لکھا ہے، افغانستان کی سماجی اور ثقافتی صورتحال کے بارے میں بتاتی ہیں: " پشتون قوم افغانستان کی مقامی ترین قوم ہے جو افغان سرزمین پر آباد ہے جو کہ اس ملک کی آبادی کا سب سے بڑا حصہ تشکیل دیتی ہے، پشتون ایک مہذب قوم ہے اور اس کی تہذیب و تمدن کئی ہزار سال قبل ادوار سے جا ملتی ہے اور وہ لوگ جو افغان سرزمین پر زندگی بسر کرتے ہیں، انہیں چاہئے کہ نہایت فخر کیساتھ اپنے آپ کو افغان یا پشتون کا نام دیں۔
ان کا کہنا تھا کہ انتخابات میں کامیاب کیلئے یہاں پشتونوں کی حمایت کافی ہے، دیگر اقوام بشمول ازبک، تاجک اور ہزارہ وغیرہ تنہا اس کام کے انجام دینے پر قادر نہیں ہیں۔
رولا غنی نے کہا کہ افغانستان میں کمزور جمہوریت اور اس کے قوانین کا احترام نہ ہونے کے سبب دیگر اقوام اس حقیقت کو نظرانداز کرچکے ہیں اور اپنی برتری کو اسلحہ اور تشدد میں ہی دیکھتے ہیں۔ کسی بھی ملک میں جہاں حاکمیت معاشرے کی اکثریت کے ہاتھوں میں نہ ہو، بحران اور تشدد سے دچار ہوتا ہے اور اس ملک کے ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتے ہیں۔