نواز شریف نے ہل منٹل فیکٹری کا 80 فیصد منافع استعمال کیا
احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز کے حوالے سے آخری گواہ نے متعدد اکاؤنٹس کی تفصیلات فراہم کردی جن پر رقم کی منتقلی کی گئی۔
خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق جج محمد ارشد ملک نے مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف اور قائد نوازشریف کی موجودگی میں العزیزیہ ریفرنس کے تفتیش کار محبوب عالم کے بیان ریکارڈ کیے۔
واضح رہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف ایون فیلڈ میں اڈیالہ جیل میں سزا کاٹ رہے ہیں۔
گزشتہ سماعت میں اڈیالہ جیل حکام نے سخت سیکیورٹی حصار میں نواز شریف کو بکتر بند گاڑی میں احتساب عدالت لایا گیا تھا۔
سماعت کے دوران تفتیش کار افسر نے العزیزیہ ریفرنس کے حوالے سے اڈٹ رپورٹ پیش کرتے ہوئے بیان دیا کہ نواز شریف نے مبینہ طور پر ہل میٹل کا 80 فیصد منافع استعمال کیا۔
عدالت میں تفصیلات پیش کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 10 لاکھ 20 ہزار یورو اور 1 کروڑ 20 لاکھ ڈالر نوازشریف کے بینک اکاؤنٹ اسٹنڈرڈ چارٹرڈ میں منتقل کیے گئے۔
تفتیش کار نے بتایا کہ 1 ارب 18 کروڑ70 لاکھ روپے سابق وزیراعظم کے اکاؤنٹ میں منتقل ہوئے جس کے بعد 5 کروڑ 62 لاکھ 56 ہزار روپے نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز کے اکاؤنٹ میں منتقل کیے گئے۔
اس حوالے سے مزید عدالت کو بتایا گیا کہ نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز نے 10لاکھ 50 ہزار یورو اپنے بھائی حسن نواز کو دیئے۔
انہوں نے بتایا کہ سپریم کورٹ کے حکم پر پاناما پیپر کیس کی تحقیقات کے دوران جمع کیے گئے شواہد کو متعلقہ عدالت میں پیش کردیا گیا تاہم مذکورہ رپورٹ نیب میں بھی جمع کرادی گئی ہے۔
تفتیش کار افسرا نے بتایا کہ نواز شریف اور ان کے دونوں بیٹے حسن اور حسین نواز کو 11 اگست 2017 کو طلبی کانوٹس جاری کیا گیا لیکن ان کی طرف سے کوئی حاضر نہیں ہوا۔
عدالت نے سماعت 20 اگست تک ملتوی کردی۔
سماعت کے بعد جب نواز شریف احتساب عدالت سے باہر نکلنے تو صحافیوں کے سوالات کا مختصر جواب دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ’ان کی طبعیت بہتر ہے اور وہ اپنے سیل میں ہی نماز ادا کرتے ہیں‘۔
ایک سوال کے جواب میں نواز شریف کا کہنا تھا کہ ’وہ ہفتے میں ایک بار اپنی بیٹی مریم نواز سے ملاقات کرتے ہیں‘۔
اس سے قبل 13 اگست کو العزیزیہ ریفرنس کی سماعت ہوئی تھی جس میں اڈیالہ جیل میں قید مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف کو سزاکے بعد پہلی پرتبہ عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔
اسی سماعت میں جوائنٹ انویسٹگیشن ٹیم (جے آئی ٹی) کے سربراہ اور استغاثہ کے گواہ واجد ضیاء، جبکہ نوازشریف کی جانب سے ایڈووکیٹ ظافر خان اور نیب کی جانب سے اسپیشل پراسیکیوٹر افضل قریشی بھی عدالت میں پیش ہوئے تھے۔
احتساب عدالت میں العزیزیہ ریفرنس میں واجد ضیاء کا بیان قلمبند ہونا تھا جس پر ایڈووکیٹ ظافر خان نے درخواست کی تھی کہ واجد ضیاء کا بیان قلمبند کرنے کے بجائے جراح کی جائے۔
جس پر احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے ریمارکس دیئے تھے کہ سپریم کورٹ کی ہدایت ہے کہ ریفرنسز میں زیادہ تاخیر نہیں کرسکتے۔
اس حوالے سے نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث کی جانب سے احتساب عدالت میں متفرق درخواست بھی دائر کی گئی ، درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ عدالت 13 اگست کو واجد ضیاء کا فلیگ شپ ریفرنس میں بیان قلمبند کرلے اور اس کے بعدسماعت ملتوی کردی جائے‘۔
جس پر عدالت نے فلیگ شپ میں پیر (13 اگست) کو واجد ضیاء کا بیان قلمبند کرنے کی استدعا مسترد کردی، اور ملزم اور گواہ کی حاضری کے بعد سماعت بدھ 15 اگست تک کے لیے ملتوی کردی گئی تھی۔
اس سے قبل 7 اگست کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کی درخواست پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے ان کے خلاف دائر ریفرنسز کی سماعت دوسری عدالت میں منتقل کرنے کی منظوری دی تھی جس کے بعد اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد بشیر ریفرنسز کی مزید سماعت نہیں کرسکتے تھے۔