لیاقت جلتی چلتی ٹرین سے کیوں کودا؟؟
تیزگام میں آتشزدگی کے بعد ٹرین سے کودنے والا زخمی لیاقت 2 روز تک زندگی اور موت کی کشمکش میں رہنے کے بعد جان کی بازی ہار گیا البتہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لیاقت جلتی چلتی ٹرین سے کیوں کودا؟
خبررساں ادارے تسنیم کے مطابق ملتان کے نشتر ہسپتال کے انتہائی نگہداشت وارڈ میں زیر علاج 55 سالہ زخمی لیاقت جس کے سر میں گہری چوٹیں آئی تھیں، دو روز تک موت سے لڑ لڑ کر بالاخر زندگی کی بازی ہار گیا اور اس طرح تیزگام میں آتشزدگی کے اندوہناک سانحے میں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 75 ہوگئی۔ تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ٹرین میں آگ لگی تو لیاقت اور اس جیسے بہت سے مسافرین نے چلتی ٹرین سے چھلانگیں کیوں لگائیں؟
وزیر ریلوے شیخ رشید کا کہنا ہے کہ تیزگام سانحے میں زیادہ جانی نقصان مسافرین کے ٹرین سے کودنے کی وجہ سے ہوا، لیکن انہوں نے اس نکتے کی وضاحت نہیں کی کہ مسافرین کو جلتی اور چلتی ٹرین سے کودنے کی کیا حاجت تھی؟
حکومت ابھی عوام کو اسی چکر میں الجھائے ہوئے ہے کہ ٹرین میں آگ کیسے لگی؟ آیا چند چشم دید گواہان کے بقول آتشزدگی کا سبب شارٹ سرکٹ تھا یا ریلوے پولیس کی ابتدائی تحقیقات کے حساب سے مسافرین کے سلنڈروں کا پھٹنا، وجہ کوئی بھی ہو یہ بات تو طے ہے کہ ٹرین میں آگ لگ گئی۔
سوال بڑا سادہ سا ہے کہ اگر کسی چلتی کار میں خدا نخواستہ آگ لگ جائے تو کیا اس کار کو فورا روک کر اترا جاتا ہے یا چلتی کار سے باہر چھلانگ لگا دی جاتی ہے؟
آخر تیزگام کے مسافرین کی ایسی کیا مجبوری تھی کہ انہوں نے ٹرین روکنے کے بجائے اس سے چھلانگ لگا دی؟
صاف ظاہر ہے کہ مسافرین نے یقینا آگ لگتے ہی ٹرین کو روکنے کے لئے ہنگامی زنجیر کا استعمال کیا ہوگا لیکن چونکہ کسی بھی بوگی میں ہنگامی زنجیریں کام نہیں کر رہی تھیں اس لئے بہت سے مسافرین نے زندہ جل جانے کے خوف سے چلتی ٹرین سے چھلانگ لگا دی اور اس بات کی تصدیق کئی متاثرین نے بھی کی ہے کہ ہنگامی زنجیریں کام نہیں کر رہی تھیں۔
دوسری جانب سانحہ تیز گام سے متعلق پاکستان ریلوے پولیس نے ابتدائی تحقیقات مکمل کرلی ہیں جس میں حادثے کی بنیادی وجہ گیس سیلنڈر کا پھٹنا قرار دیا گیا ہے۔ بہت خوب۔
ترجمان پاکستان ریلوے کے مطابق متاثرہ ٹرین کے گارڈ محمد سعید کی مدعیت میں نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ بھی درج کرلیا گیا ہے۔ اس سے بھی خوب۔
یعنی ہمارے ریلوے کے ادارے نے جاں بحق ہونے والے مسافرین کے خلاف مقدمہ دائر کر لیا ہے، یعنی مقدمے کے ملزمان دنیا میں موجود ہی نہیں ہیں۔
اگر عینی شاہدین کو جھٹلاتے ہوئے ریلوے پولیس کی ابتدائی تحقیق کو ہی سچ مان لیا جائے تو اچھا کیا کہ سانحے کے ذمہ داران کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا۔
سو، اب ریلوے کے اس عملے کے خلاف مقدمہ کب درج ہوگا جن کی نااہلی کی وجہ سے گیس سے بھرے ہوئے یہ سیلنڈر ٹرین میں پہنچے؟
اور وزارت ریلوے کے خلاف مقدمہ کب درج ہوگا جن کی ٹرینوں میں ہنگامی زنجیریں کام نہیں کر رہی تھیں؟
ادھر بلاول بھٹو نے موقع غنیمت جانا اور اپنی سیاست چمکاتے ہوئے تحقیقات کے مکمل ہونے تک وزیر ریلوے شیخ رشید کے استعفی کا مطالبہ کر دیا جبکہ شیخ رشید صاحب نے بھی کمال فراخدلی اور اعلی ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بیان دیا کہ میرے استعفی کا کوئی مسئلہ نہیں، میں اس بارے میں اتوار کو بات کروں گا۔
اتوار کا سورج تو ڈوب چکا تاہم ابھی تک وزیر ریلوے شیخ رشید صاحب کا کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔ اسی طرح تیزگام کی بوگیوں کی آگ تو بجھ گئی تاہم ایک سول ابھی تک سلگ رہا ہے کہ 75 قتل کی سزا استعفی ہوتا ہے یا 75 مرتبہ سزائے موت؟
اگر وزیر ریلوے نے استعفی دینا ہی تھا تو اس دن دیتے جب 2 ماہ قبل یہ بیان دیا تھا کہ ریلوے میں بہت سیاست ہے، اس ادارے میں انقلاب نہیں لا سکتے کیونکہ اگر وزیر اپنے محکمے کو ٹھیک نہیں کر سکتا اور اس بات کا برملا اعتراف بھی کررہا ہے تو کیا تیزگام جیسے سانحے کا ہی انتظار کیا جا رہا تھا، اس سے اسی وقت استعفی کیوں نہیں لیا گیا؟
بہرحال اب تو استعفی کا وقت گزر چکا، اب 75 قتل کے مقدمے کا وقت ہے کیونکہ آگ خواہ سیلنڈروں کے پھٹنے سے لگی ہو یا شارٹ سرکٹ سے، ٹرین میں آگ بجھانے کا سامان نہ ہونا اور ہنگامی زنجیروں کا کام نہ کرنا ثابت کرتا ہے کہ یہ 75 ہلاکتیں نہیں، 75 قتل ہیں۔
تحریر: سید عدنان قمر جعفری
(ادارے کا مصنف کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے)