اسلام آباد: سپریم کورٹ کا جسٹس وقار کو فوجی کیس کی سماعت سے روکنے سے انکار


اسلام آباد: سپریم کورٹ کا جسٹس وقار کو فوجی کیس کی سماعت سے روکنے سے انکار

سپریم کورٹ نے مشرف کو سزا سنانے والے پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ کو فوجی عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف اپیلوں کی سماعت سے روکنے کے لیے وفاقی حکومت کی استدعا کو مسترد کردیا ہے اور کہا ہے کہ عدالتِ عظمیٰ ہائی کورٹ کے معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتی۔

 یاد رہے کہ پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ فوجی عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف 10 مارچ سے سماعت شروع کریں گے. یہ اپیلیں صوبہ خیبر پختونخوا میں فوج کے زیر انتظام حراستی مراکز میں موجود 200 کے قریب ملزمان نے دائر کر رکھی ہیں۔

جسٹس وقار احمد سیٹھ اس تین رکنی خصوصی عدالت کے سربراہ تھے جس نے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کو آئین شکنی کا مجرم قرار دیتے ہوئے پانچ مرتبہ موت کی سزا کا فیصلہ سنایا تھا۔

 وقار سیٹھ نے اپنے فیصلے میں یہ بھی لکھا تھا کہ اگر اس سزا پر عملدرآمد سے پہلے مشرف وفات پا جائیں تو ان کی لاش کو تین دن تک کے لیے پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے ڈی چوک پر لٹکایا جائے۔

افواج پاکستان نے جسٹس وقار احمد سیٹھ کی عدالت کے اس فیصلے پر سخت ردعمل دیا تھا اور کہا تھا کہ اس فیصلے سے فوج میں اضطراب اور بے چینی پائی جاتی ہے۔ اس کے بعد وفاقی حکومت نے جسٹس وقار احمد سیٹھ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرنے کا اعلان کیا تھا۔ تاہم ابھی تک یہ ریفرنس دائر نہیں کیا جا سکا۔

9 مارچ 2020 کو عدالتی سماعت کے دوران وفاقی حکومت کی طرف سے جسٹس وقار کو فوجی عدالتوں کے خلاف اپیلوں کی سماعت سے روکنے کی استدعا ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کی تھی ،جس پر جسٹس مشیر عالم نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ ہائی کورٹ کے معاملات میں کیسے مداخلت کرسکتی ہے۔

 بینچ کے سربراہ نے وفاقی حکومت کے نمائندے کو بتایا کہ اگر اُنھیں ہائی کورٹ کے فیصلوں پر اعتراض ہے تو وہ اس کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرسکتے ہیں۔

سماعت کے دوران فوجی عدالتوں سے موت کی سزا پانے والے مجرم جمشید علی کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ان کے موکل کو سنہ 2012 میں اس وقت گرفتار کیا گیا جب اُنھیں سعودی عرب سے آئے ہوئے صرف 15 روز ہوئے تھے۔

 اُنھوں نے کہا کہ ان کے موکل کو محض اس جرم میں موت کی سزا سنائی گئی کہ اُنھوں نے شدت پسندوں کو کھانا کھلایا تھا۔

جسٹس وقار سیٹھ نے چند ماہ قبل خیبر پختونخواہ میں فوج کے زیر انتظام چلنے والے حراستی مراکز میں سزا یافتہ قیدیوں کی فوجی عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف درخواستوں کی سماعت کی اور ان فوجی عدالتوں کے ٹرائل کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ان تمام افراد کی رہائی کا حکم دیا تھا۔ تاہم ابھی تک ان افراد کو رہا نہیں کیا گیا اور اُنھیں فوج کے زیر انتظام مختلف حراستی مراکز میں رکھا گیا ہے۔ خیال رہے کہ ان افراد کو صوبہ خیبر پختونخوا میں ہونے والے دہشت گردی کے مختلف مقدمات میں گرفتار کیا گیا تھا۔

جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے 9 مارچ کو پشاور ہائی کورٹ کے ان 71 افرد کو رہا کرنے سے متعلق فیصلے کے خلاف صوبے اور وفاق کی طرف سے دائر کی گئی اپیلوں پر سماعت کی۔

عدالت نے وفاقی حکومت کو شدت پسندی کے مقدمات میں گرفتار ہونے والے ان 71 افراد کے جرائم اور ان سے کی جانے والی تفتیش سے متعلق ایک مفصل رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔

 دوران سماعت عدالت نے ان مقدمات میں سزا پانے والے مجرموں، شریک ملزمان اور رہائی پانے والے افراد کی تفصیلات بھی طلب کرلی ہیں۔

 عدالت نے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ کیا تفتیشی ادارے کے پاس ملزمان کے اقرار جرم کے علاوہ کوئی اور بھی ثبوت ہے؟ عدالت نے وفاقی اور صوبائی حکومت کو حکم دیا ہے کہ وہ ملزمان کے خلاف شواہد کے حوالے سے بھی آگاہ کریں۔

 ایڈیشنل اٹارنی جنرل ساجد الیاس بھٹی نے عدالت کو بتایا کہ فوجی عدالتوں کی طرف سے ان مقدمات کی سماعت کے دوران گرفتار ہونے والے تمام افراد کو مجرم نہیں گردانا گیا بلکہ ان عدالتوں سے ملزمان کو عدم شواہد کی بنا پر بری بھی کیا گیا ہے۔

 اُنھوں نے کہا کہ گرفتار ہونے والے درجنوں افراد کو عدم ثبوت کی بنا پر انکوائری کے مرحلے میں ہی رہا کردیا گیا تھا۔ اُنھوں نے کہا کہ ان ملزمان کے خلاف الگ الگ مقدمات درج ہیں اور ان کی نوعیت بھی ایک دوسرے سے مختلف ہے۔

بینچ میں شامل جسٹس منیب اختر نےکہا کہ کسی بھی ملزم کو شفاف ٹرائل صرف آئین کے ارٹیکل 10 اے تک ہی محدود نہیں ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ اگر حکومت شدت پسندی کے مقدمات میں گرفتار ہونے والے ان ملزمان کے خلاف عدالتی ٹرائل کو مکمل کرنا چاہتی ہے تو کیا اس ضمن میں کوئی گواہ بھی پیش کیے گئے ہیں؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ فوجی عدالت میں گواہ اور جج حلف پر ہی بات کرتے ہیں اور اس لیے اس میں شک کی گنجائش نہیں رہتی۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ان ملزمان کو سنہ 2004 سے سنہ 2015 کے دوران ملک میں ہونے والی شدت پسندی کی کارروائیوں کے نتیجے میں درج ہونے والے مقدمات میں گرفتار کیا گیا۔

اُنھوں نے کہا کہ پشاور ہائی کورٹ نے فوجی عدالتوں کے حوالے سے سپریم کورٹ کی طرف سے دی گئی گائیڈ لائنز پر بھی عمل درآمد نہیں کیا۔

اہم ترین پاکستان خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری