کورونا وائرس سے بچاو تجربات کے آئینے میں
دوسروں کے تجربات سے استفادہ کرنا عقلمندی ہے، کسی بھی کام کو انجام دینے سے پہلے اس کے ماضی کو دیکھا جائے اور اس کو انجام دینے میں ماضی کے لوگ کن کن مشکلات سے دوچار ہوئے ہیں اور ان مشکلات کو کیسے رفع دفع کیا ہے
دوسروں کے تجربات سے استفادہ کرنا عقلمندی ہے، کسی بھی کام کو انجام دینے سے پہلے اس کے ماضی کو دیکھا جائے اور اس کو انجام دینے میں ماضی کے لوگ کن کن مشکلات سے دوچار ہوئے ہیں اور ان مشکلات کو کیسے رفع دفع کیا ہے نیز اس مقابلے میں ان کے پاس کن چیزوں کی کمی تھی جس کی وجہ سے ہدف تک دیر سے پہنچے یا نہ پہنچ پائے۔ اس طرح سے انسان کم وقت میں مختصر خرچے کے ساتھ مقصد تک پہنچ سکتا ہے، کیونکہ اس سے پہلے کوئی اور اس راستے کا راہی بن چکا ہے اور بعد میں آنے والا شخص اس ماضی کو دیکھ پر آگے بڑھتا ہے۔
پاکستان آجکل جو کورونا کا سامنا کررہا ہے جبکہ پاکستان سے پہلے بہت سارے ممالک بالاخص چین، اٹلی اور ایران اس بیماری سے پنجہ آزمائی کرچکے ہیں یا کررہے ہیں تو ان ممالک کے تجربات سے استفادہ کرنا چاہئے تاکہ مختصر اخراجات اور کم وقت میں اس کا مقابلہ ہوسکے۔
راقم الحروف جو کہ اس وقت ایران میں ہوں اور وہ بھی قم شہر میں جہاں سے اس ملک میں کورونا کا آغاز ہوا ہے۔ اور کورونا کے بارے میں یہاں پر بہت کچھ سننے اور دیکھنے کو ملا لیکن الحمدللہ ایسی کوئی پریشانی لاحق نہیں جتنا پاکستان کے اس شہر یا دیہات میں لوگوں کو لاحق ہے جہاں ابھی کوئی کورونا کا کیس تک سامنے نہیں آیا ہے اور ان شاء اللہ آئے گا بھی نہیں۔ اسی لئے یہاں پر جو کچھ ہم نے دیکھا یا سنا ان میں سے دوچار باتیں قارئین کی نذر کرتا ہوں تاکہ ان کے تجربات سے ہم فائدہ اٹھا سکیں۔
(1۔ افواہ)
افواہ ایک ایسی خبر ہے جو سچ اور جھوٹ کو ملا کر پیش کیا جاتا ہے اور عام لوگ سچ اور جھوٹ کی تشخیص نہیں دے پاتے ہیں جسکی وجہ سے وہ اسے سچ سمجھ بیٹھتے ہیں۔ ایران میں کورونا کے حوالے سے دو قسم کی افواہیں گردش کرتی تھیں، ایک تو یہ کہ کورونا نام کی کوئی چیز نہیں یہ میڈیا کا پروپیگنڈا ہے اور حکومت کی سیاست کا ایک حصہ ہے، یا یہ کہنا کہ کورونا صرف بیمار اور ضعیف العمر انسانوں کے لئے خطرناک ہے اور اس طرح کی بعض دوسری افواہیں جس کا لب لباب یہ تھا کہ کورونا کوئی بیماری نہیں بلکہ وہی نزلہ زکام، آنفولئنزا ہے، ان باتوں میں آکر بہت سارے لوگ کورونا سے غافل رہے جس کے نتیجے میں شاید کچھ لوگ اس وائرس کے لپیٹ میں آگئے۔ دوسری قسم افواہیں یہ تھیں کہ کورونا کو بہت زیادہ خطرناک دکھانا، جس کے لئے معمولی سے واقعے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا تھا جس سے بہت سارے لوگ خوف و ہراس کا شکار ہوتے تھے جس سے ان کے بدن کی امیونیٹی پاور کمزور ہوجاتی تھی جس کے نتیجے میں پھر کورونا میں ابتلاء کا خطرہ درپیش ہوتا تھا۔ ان افواہوں میں بیماروں اور مرنے والوں کی جھوٹی تعداد، دیگر امراض کے سبب مرنے والوں کو کورونا کے متاثرین میں شمار کرنا، کوئی خود کو ڈاکٹر یا نرس کی شکل میں پیش کرکے ہسپتال کے اندر کی جھوٹی ویڈیو کلیپس نشر کرنا، ڈاکٹروں اور نرسوں کے خلاف باتیں کہہ کر مریضوں کے رشتہ داروں کو ان کے خلاف ابھارنا اور اس طرح کی دیگر افواہیں جس سے معاشرے میں ایک بےاعتمادی کی فضا وجود میں آتی تھی۔ ایسا کچھ اب ہمارے ملک میں بھی ہونے جارہا ہے اس کے لئے پولیس اور عدلیہ کو چوکنا رہنا پڑے گا۔ یہاں ایرانی عدلیہ نے بھی فی الفور اقدام کیا اور جھوٹی خبریں پھیلانے والے، جھوٹ پر مبنی کلیپس بنانے والے اور ڈاکٹروں اور ذمہ داروں کے خلاف افواہ پھیلانے والوں کے خلاف ایکشن لیا اور انہیں گرفتار کیا جس کے نتیجے میں جھوٹے پروپیگنڈے کم ہوئے اور معاشرے میں کسی حد تک صحیح خبریں سننے اور انہیں پر اعتماد کرنے کی فضاء قائم ہونے لگی۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ لوگوں میں خوف و ہراس کم ہوتا ہے۔
(2۔ ذخیرہ اندوزی اور مفادپرستی)
دوسری بات جو یہاں نظر آئی جس طرح سے دنیا کے دیگر ممالک میں بھی ہوتا ہے کہ مشکل گھڑی میں مفادپرست عناصر دوسروں کی کمزوریوں سے سوء استفادہ کرتے ہیں یہاں پر بھی ایسی مافیا متحرک ہوئی جس کی وجہ سے ایک ہی رات میں ماسک، ڈسپوزل دستانے اور دیگر ضرورت کی چیزیں نایاب ہوئیں، مختلف صفائی ستھرائی کے مواد مارکیٹ سے غائب ہوئے اور مہنگائی بڑھنے لگی، اس میں بھی پولیس اور خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں نے فی الفور اقدام کیا اور بہت ساروں کے گرفتار کیا اور بہت کچھ بلیک کی جانے والی اور ذخیرہ اندوزی کرنے والی چیزوں کو کشف کیا اور ملزموں کو کٹہرے میں لاکھڑا کیا۔ سوء استفادہ اس حد تک ہوا کہ الکحل کے نام پر گیلن میں پانی بھر کر بیس لیٹر پانی کو 12 لاکھ تومان میں فروخت کیا۔ تو یہ میرے ملک میں بھی ہونے جارہا ہے جیسا کہ فیس ماسک بلیک کرنے کی خبریں گردش کررہی ہیں۔
(3۔ عوام کو اطلاع رسانی)
عوام کو ایسے مواقع پر درست خبروں سے آگاہ رکھنا ضروری ہوتا ہے ورنہ جعلی اور غلط خبریں عوام کی پریشانی کا باعث بن سکتی ہیں۔ کوئی ذمہ دار شخص ہی بیماروں کے اعداد و شمار کو بیان کرے جس میں صحت پانے والے افراد کی تعداد کو کچھ زیادہ ہی برجستہ کرے تاکہ لوگوں میں مایوسی
کے بجائے امید کی کرن پھوٹے۔ لہذا ایران کے اندر صرف ایک ہی ادارے کا ایک ہی شخص کو معین کیا گیا جو چوبیس گھنٹے میں ایک مرتبہ بیماروں، مرنے والوں اور شفا پانے والوں کی تعداد کو بیان کرتا ہے اب تقریبا اکثر لوگ اس بات کو باور کر گئے ہیں کہ جو تعداد گورنمنٹ کی جانب سے معین افراد کے علاوہ بیان کی جاتی ہے وہ صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ ہر ملک کے اندرونی اور بیرونی دشمن عناصر ہوا کرتے ہیں جو ان اعداد و شمار کے ذریعے سے ملک کو نقصان پہنچانے کے درپے رہتے ہیں۔ لذا پاکستان میں آزاد میڈیا پر اس حوالے سے لگام دینے کی ضرورت ہے کہ وہ سرکاری اعداد و شمار کے علاوہ کوئی اور خبر نشر نہ کرے۔ البتہ سرکار بھی حقائق پر مبنی رپورٹ پیش کرے تاکہ میڈیا کو اس پر اعتماد رہے۔
(4۔ آگاہی مہم)
بہت ساری فیملیز شاید اس بات سے غافل ہوں کہ کورونا کیا ہے، اس سے کیا خطرات لاحق ہوسکتے ہیں، کیسے اس کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے، اس بارے میں عوام کو آگاہ رکھنے اور انکو شعور دینے سے وہ آگاہی کے ساتھ کورونا کو روکنے میں مددگار ثابت ہوسکیں گے۔ اس میں میڈیا کا بڑا رول ہوتا ہے اکثر پروگرامز میں اس بات کا خیال رکھنا ہوگا، اور لوگوں کو مختلف ٹی وی چینلز کے ذریعے آگاہی دینے کی ضرورت ہے۔ نیز دکاندار، ڈرائیور اور ان افراد کو کورونا سے بچاو کی تدابیر سے باخبر کرنا ہوگا جنکا لوگوں سے سروکار ہے۔ اس طرح سے لوگوں کو صحیح آگاہی ملنے پر وہ کورونا بچاو مہم کا حصہ بنیں گے اور گھروں سے باہر آنے سے اجتناب کریں گے اور جب عوام کا باہر سے رابطہ کم ہوگا تو کورونا بھی اپنی موت آپ مرے گا۔
(5۔ نادار لوگوں کی مدد)
کورونا چونکہ ایک وبا ہے اس لئے محلے میں اگر ایک فرد پر بھی یہ وائرس لگے تو دوسروں تک پہنچ سکتا ہے لہذا غریب اور نادار طبقے کا خیال رکھنا ہوگا۔ ان کے پاس ماسک، دستانے، صابن اور دیگر ضرورت کی چیزیں تو درکنار انکے پاس شاید ان دنوں چولہا جلانے کے وسائل تک نہ ہوں تو اس کے لئے خیرین اور فلاحی اداروں کو فعال کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم نے یہاں پر دیکھا کہ غریبوں تک سبزی، آٹا، روزمرہ کی چیزوں کے علاوہ صفائی کے وسائل بھی پہنچانے میں مددکرتے ہیں۔ نیز گورنمنٹ کی طرف سے بھی اس مستضعف طبقے کے لئے روزمرہ کی ضروریات فراہم کرنے کے لئے سہولیات میسر ہونی چاہیے۔
(6۔ ہسپتال کے عملے کی حوصلہ افزائی)
اس میں شک نہیں کہ کورونا کے مریضوں کا معالجہ اور دیکھ بھال ایک ڈاکٹر اور نرس کے لئے ذرہ برابر غفلت سے جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے تو ایسے میں ممکن ہے ہسپتال کا عملہ اس کام کے انجام دینے میں لیت لعل کا شکار ہوں اسی لئے ایران کے سپریم لیڈر نے ہسپتال کے عملے میں سے کوئی کورونا کی وجہ سے وفات ہونے کی صورت میں انہیں «شہید خدمت» کا درجہ دیا جس کے نتیجے میں سرکاری شہید فاونڈیشن سے ان کی فیملز کو عمر بھر اخراجات، تنخواہ اور دیگر سہولیات میسر ہونگی۔ نیز ڈاکٹروں کو بھی انسانی ہمدردی اور فداکاری اور ایثار کے ساتھ ان بیماروں کی خدمت اور علاج معالجہ کرنا چاہئے۔ کیونکہ ممکن ہے ایک انسان کی جان بچانے کے عوض اللہ تعالی آپ کی پوری فیملی کو محفوظ رکھے۔
(7۔رضاکارانہ خدمات)
کورونا سے مقابلہ حکومت اکیلے میں نہیں کرسکتی ہے اس کے لئے عوام کو بھی شانہ بشانہ کھڑا ہونا ہوگا۔ لہذا ہسپتالوں میں رضاکار افراد کی ٹیمیں جو مریضوں کی دیکھ بھال کرنے میں مددگار بن سکیں، کورونا کی وجہ سے جانبحق ہونے والے افراد کی تجہیز ، تکفین اور تدفین کے لئے خصوصی ٹیموں کا قیام، ان مریضوں کے اخراجات میں تعاون، نیز گلی کوچوں میں سپرے کرنے والی ٹیمیں اور محلہ وار ٹیم تشکیل دے کر اس محلے میں کورونا بچاو مہم چلانا اس طرح کی رضاکار ٹیمیں ہمیں ہر روز یہاں دیکھنے کو مل رہی ہیں اور پاکستانی عوام ہر مشکل مرحلے میں انسانی ہمدردی دکھانے میں سبقت لیتی رہی ہے اور ان شاء اللہ اس بار بھی سرخرو ہوگی۔
اس کے علاوہ بھی بہت سارے تجربات ہیں جو اس مختصر تحریر کے بس میں نہیں۔ اللہ تعالی عالم انسانیت کو کورونا کے وائرس سے محفوظ رکھے۔
تحریر: ڈاکٹر مشتاق حسین حکیمی