حکومت کے نظام عدل پر عوام کا اعتماد بہت حد تک متزلزل ہوچکا، وزیراعظم کا اعتراف
وزیراعظم عمران خان نے اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ انصاف کے موجودہ نظام پر عوام کا اعتماد بہت حد تک متزلزل ہوچکا ہے، انصاف کے نظام میں بہتری کے لئے عوام کی توقعات موجودہ حکومت سے وابستہ ہیں۔
تسنیم خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق، وزیرِ اعظم نے کہا کہ موجودہ حکومت کی اولین ترجیح معاشرے کے کمزور، بے بس اورلاچار طبقات کی آواز بننا اور ان کو انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے آئینی اصلاحات اور خواتین قیدیوں کی حالت زار پر غور پر کرنے کے لیے دو کمیٹیاں تشکیل دیں اور کہا کہ انصاف کے موجودہ نظام پر عوام کا اعتماد بہت حد تک متزلزل ہوچکا ہے۔
وزیرِ قانون بیرسٹر فروغ نسیم، مشیر برائے پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان اور اٹارنی جنرل پر مشتمل تشکیل دی گئی کمیٹی قانونی اصلاحات کے عمل کو آگے بڑھانے کے لیے مبنی روڈ میپ مرتب کرے گی جس کی روشنی میں آئندہ ہفتے مزید فیصلے کیے جائیں گے۔
ان کمیٹیوں کے قیام کا فیصلہ وزیر اعظم کے زیر صدارت اجلاس میں کیا گیا۔
وزیراعظم نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ انصاف کے نظام میں پائے جانے والے سقم کو دور کرنا اور عوام کو آسان، سستے اور فوری انصاف تک رسائی کو یقینی بنانا پاکستان تحریک انصاف کے منشور کا بنیادی جزو ہے۔
قبل ازیں وزیر قانون نے وزیر اعظم کو اصلاحات سے متعلق بریفنگ دیتے ہوئے کہا تھا کہ نظام میں اصلاحات کو نافذ کرنے کے بعد مقدمات کے تدارک کے لیے ایک میعاد طے کی گئی ہے۔
انہوں نے اجلاس کو خواتین قیدیوں کے حالات بہتر بنانے اور ان کی وراثت کے امور سے متعلق اصلاحات کے بارے میں بھی آگاہ کیا۔
وزیر اعظم کے دفتر کے مطابق دوسری کمیٹی بڑے پیمانے پر معاشرے میں پائے جانے والے صنفی تعصب کے مجموعی تناظر میں خواتین قیدیوں کی حالت زار پر نظر ڈالے گی چاہے وہ سزا یافتہ ہوں یا انہیں مقدمات کی سماعت کا انتظار ہو۔
دفتر سے جاری سرکاری پریس ریلیز میں کہا گیا کہ اس مسئلے کو جامع انداز میں حل کرنے کے لئے ادارہ جاتی انتظامات کو عملی شکل دینے کی ضرورت ہے۔
سات اراکین پر مشتمل کمیٹی کی سربراہی وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق (بطور چیئرپرسن) کر رہے ہیں اور اس میں سیکریٹری وزارت انسانی حقوق (کمیٹی کے سکریٹری کے طور پر)، سیکریٹری وزارت داخلہ، پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا، بلوچستان اور گلگت بلتستان کی حکومتوں کے ہوم سیکرٹریز، پنجاب ، سندھ ، خیبر پختونخوا ، بلوچستان ، اور گلگت بلتستان کے انسپکٹر جنرل پولیس برائے جیل خانہ جات شامل ہیں۔
کمیٹی کا چیئرپرسن کسی بھی شخص کو کمیٹی کے رکن کی حیثیت سے منتخب بھی کرسکتا ہے۔
پریس ریلیز کے مطابق کمیٹی جائزہ لے گی کہ کیا خواتین قیدیوں کے تحفظ، حقوق، صحت، سلامتی اور فلاح و بہبود کے حوالہ سے بالخصوص اور جیل کے قواعد و ضوابط، ضابطہ فوجداری 1898 اور بین الاقوامی سطح پر خواتین قیدیوں کے حوالہ سے رائج قوانین، قواعد و ضوابط اور طریقہ کار کے مطابق سلوک کو کس حد تک یقینی بنایا جا رہا ہے۔
کمیٹی اس امر کو یقینی بنائے گی کہ خواتین کو ان کی جسمانی، نفسیاتی، جذباتی اور سماجی ضروریات کے مطابق مخصوص سہولیات میسر ہوں۔
کمیٹی جیل اور دیگر متعلقہ قواعد کا بھی جائزہ لے گی اور خواتین کی حالت کو بہتر بنانے کیلئے ضروری سفارشات پیش کرے گی۔
کمیٹی خواتین قیدیوں کے حوالہ سے بالخصوص گورننس، قانونی معاونت، جیلوں کے انتظامی ڈھانچہ اور طریقہ کار کا جائزہ لے گی اور بہتری کیلئے تجاویز دے گی۔
کمیٹی خواتین پر تشدد اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے انفرادی واقعات کا بھی جائزہ لے گی اور ادارہ جاتی سطح پر احتساب کے لئے اقدامات تجویز کرے گی۔
کمیٹی جیلوں میں خواتین کے ساتھ بچوں کی صورتحال کا بھی جائزہ لے گی اور ان بچوں کو تعلیم کی فراہمی اور ان کی فلاح و بہبود کیلئے بھی تجاویز دے گی۔
کمیٹی جیلوں کے گورننس نظام کی بہتری کے لیے بھی قابل عمل اور جامع تجاویز دے گی۔
کمیٹی خواتین قیدیوں کو رہائی کے بعد معاشرے میں اپنا کردار ادا کرنے کے قابل بنانے اور ان کی فلاح و بہبود سے متعلقہ دیگر امور پر بھی کام کرے گی
وزیر اعظم نے کمیٹی کو 4 ماہ کے اندر اپنی رپورٹ پیش کرنے کا بھی حکم دیا۔