پنجاب اسمبلی کا متنازعہ تحفظِ بنیادِ اسلام ایکٹ، فرقہ ورانہ منافرت کے فروغ کا پیش خیمہ
گرچہ صوبائی حکومت نے اسے عارضی طور پر معطل کردیا ہے تاہم اھلبیت (ع) کے چاہنے والوں میں اب بھی شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔
تسنیم نیوز ایجنسی: پنجاب اسمبلی نے حال ہی میں تاریخ کا انتہائی متنازعہ "پنجاب تحفظِ بنیادِ اسلام ایکٹ" منظور کیا تھا جس کو گرچہ صوبائی حکومت نے عارضی طور پر واپس لے لیا ہے تاہم عوامی حلقوں اور اھلبیت (ع) کے چاہنے والوں میں اب بھی شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اس ایکٹ کی منظوری سے حساس مذہبی عقائد سے کھلواڑ کرنے کی کوشش کی جارہی تھی اور یہ بل ملک میں فرقہ ورانہ منافرت کے فروغ کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ ایسے متنازعہ بل کو منظور کرنے کی ایسی کیا جلدی تھی کہ اس حساس معاملہ پر تمام مسالک کے علماءکرام سے مشاورت نہیں کی گئی؟
واضح رہے پنجاب اسمبلی سے پاس ہونے والے "پنجاب تحفظِ بنیادِ اسلام ایکٹ" کو مندرجات کے حوالے سے اھلبیت (ع) کے چاہنے والوں نے متنازع قرار دیتے ہوئے یکسر مسترد کر دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ محرم الحرام سے قبل ایسا متنازعہ بل ملک میں بے چینی پھیلانے کی سوچی سمجھی کوشش ہے۔
پاکستان مختلف مکاتب فکر کا گلدستہ ہے۔ یہاں ہر مسلک کے جید علمائے کرام بھی موجود ہیں، لیکن اس بل کی منظوری کیلئے ایک مخصوص گروہ کی بدنیتی ثابت ہوتی ہے۔
پنجاب اسمبلی میں جس روز یہ بل منظور ہوا، اس دن اپوزیشن نے کورم پورا نہ ہونے پر احتجاج کرتے ہوئے اجلاس کا بائیکاٹ کیا اور اپوزیشن جماعتوں کے ارکان ایوان سے واک آوٹ کر گئے تھے تاہم حکومتی جماعت پاکستان تحریک انصاف نے فوری طور پر اپنے ارکان کو ایوان میں بلایا، کورم پورا کیا اور مذکورہ بالا متنازع بل منظور کر لیا۔
اس متنازعہ بل کیلئے سب سے اہم کردار جھنگ سے تعلق رکھنے والے کالعدم سپاہ صحابہ کے معاویہ اعظم طارق ہیں جنہوں نے "راہ حق پارٹی" کے نام سے الیکشن میں حصہ لیا اور رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے۔
معاویہ اعظم کیساتھ صوبائی وزیر معدنیات حافظ عمار یاسر اور حافظ طاہر اشرفی کا کردار بھی انتہائی اہم رہا۔ حافظ عمار یاسر چودھری برادران کے بہت قریب ہیں اور حافظ طاہر اشرفی نے سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویزالہیٰ کو قانع کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
بل کے مندرجات سامنے آنے پر تمام شیعہ جماعتوں اور عمائدین نے فوری ردعمل دیا اور اس بِل کو سختی سے مسترد کر دیا۔
اہل تشیع علماء کے مطابق اس بل کو بدنیتی سے پاس کروایا گیا ہے۔ ان کے مطابق اہلبیت اطہارؑ صحابہ کرام کی نسبت زیادہ مرتبے کے حامل ہیں، ان کو صحابہ کرام اجمعین(رض) کے برابر سمجھنا توہین اہلبیتؑ اور توہین رسالت (ص) ہے۔ اس حوالے سے اہلسنت حضرات کا بھی یہی عقیدہ ہے۔
ادھر مسلم لیگ (ق) کے ذرائع کا کہنا تھا کہ چودھری پرویزالہیٰ کو استعمال کیا گیا ہے۔ ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ معاویہ اعظم، حافظ طاہر اشرفی، حافظ عمار یاسر اور دیگر نے چودھری پرویزالہیٰ کو بل کے مندرجات سے لاعلم رکھا۔ چودھری پرویزالہیٰ کو "علیہ السلام" اور "رضی اللہ تعالیٰ عنہ" کے فرق سے بھی لاعلم رکھا گیا۔
اھل تشیع علماء کا کہنا ہے کہ صرف ایک تکفیری گروہ کالعدم سپاہ صحابہ ہے، جو اہلبیت اطہارؑ کی شان کو کم کرتے ہیں اور یہ بل بھی اسی منفی سوچ کے تحت پنجاب اسمبلی سے منظور کروایا گیا ہے۔
ماضی میں (ق) لیگ کی کبھی ایسی پالیسی نہیں رہی کہ وہ فرقہ واریت کا شکار ہوئی ہو یا کبھی فرقہ پرستوں کی حمایت کی ہو، مگر اس بار (ق) لیگ کی قیادت کو استعمال کر لیا گیا ہے۔ مسلم لیگ (ق) کے ذرائع کا کہنا ہے کہ چودھری پرویز الہیٰ نے اس حوالے سے واضح کر دیا ہے کہ وہ اس بل کو فی الحال معطل کر رہے ہیں اور اس میں تمام مکاتب فکر کے علماء کی رائے لینے کے بعد اسے حتمی شکل دے کر دوبارہ منظور کروایا جائے گا۔
عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ پنجاب حکومت عوام میں پیدا ہونے والے اس تاثر کو فوراً ختم کرے کہ منصوبہ بندی کےساتھ مخصوص طرز فکر رکھنے والے تکفیری گروہ کے ایجنڈے کی تکمیل اور ان کی تقویت کےلئے یہ ایکٹ منظور کیا گیا تھا۔