انسانیت کی قدر کریں۔۔۔۔!!
ذرا تصور کیجئے، ایک دن صبح جب خواب آپ خواب سے بیدار ہوں اور اپنے ارد گرد کسی ذی روح کو نہ پائیں، کوئی بھی نہ ہو، سب مرچکے ہوں! دنیا میں آپ اکیلے ہی رہ گئے ہوں!! گویا اب آپ ساری دنیا کے مالک بن چکے ہیں!! اس دن آپ کس قسم کے لباس زیب تن کریں گے؟؟؟ سواری کے لئے کس قسم کی گاڑی کا انتخاب کریں گے؟؟؟ رہنے کے لئےکتنے مربع گزکے گھرکا انتخاب کریں گے ؟
اب گھر، گاڑی، سونا، پیسہ وغیرہ خوشی کے اسباب ہونے کے باوجود آپ کو خوشحال نہیں کررہے! کیوں؟ اس لئے کہ آپ کے پاس خوشی بانٹنے کے لئے کوئی نہیں رہا! یہ وہ موقع ہے کہ انسان کی قدر و قیمت سمجھ میں آتی ہے۔ انسان ہمیشہ دوسرے انسانوں کے بغیر ادھورا ہی ہے۔
شاید اس وقت آپ اللہ سے دعا کریں کہ یااللہ یہ ساری دولت واپس لے لے اور انسانوں کو واپس کردے، ان تمام لوگوں کو واپس کردے جن کو میں دھوکہ دے کر پیسہ کمانے کی کوشش کررہا تھا! میرے عزیزوں کو لوٹا دے جن کی میں نے ان کی زندگیوں میں قدر نہ کی اور پیسہ کمانے کی دھن میں اتنے خوبصورت رشتوں کو فراموش کر دیا۔ ان کے بغیر زندگی ہی بے معنی ہوگئی ہے۔
ہماری بدقسمتی ہے کہ آج ہم مادہ پرستی میں اس قدر ڈوب چکے ہیں کہ ہمیں اس بات کا احساس تک نہیں رہا کہ ہم زندگی جیسی عظیم نعمت کو کس قدر بے فکری اور کس قدر ناشکری سے اپنے ہاتھوں سے ضائع کیے جارہے ہیں۔
آج مال و دولت اور مادی اشیاء ہماری زندگی کا محور و مرکز ہیں اور ہم اپنے عقل اور شعور کو انسانیت کی تعمیر کی بجائے انسانیت کی تخریب پر استعمال کرنے پر تلے بیٹھے ہیں۔زندگی کے بارے میں ہمارے رویّے اور ہماری سوچیں دن بہ دن کس قدر سفاکانہ اور ظالمانہ ہوتی جارہی ہیں اس کا اندازہ ہمارے معاشرے میں تیزی سے پھیلتی ہوئی بے حسی اور انتشار سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔
فطرت کے اصول اور تقاضوں سے روگردانی ہماری فطرت ثانیہ اور ہماری روزمرہ زندگی کا اسلوب بن چکی ہے۔
سیاست کا میدان ہو یا خونی رشتوں کی کہانی، جدھر دیکھو وہیں نفرتوں، عدواتوں، عدم برداشت اور ایک دوسرے کی ناقدری کا جذبہ شدت سے زور پکڑتا نظر آتا ہے۔ احساس، محبت، چاہت اور خلوص سے عاری کھوکھلے رویّے ہمیں نہ صرف خود سے، بلکہ زندگی سے بھی دور کرتے جا رہے ہیں۔
بقول شاعر:
دھجیاں اڑنے لگیں انسانیت کی چار سو
دل درندہ ہوگیا انسان پتھریلے ہوئے
آج ہمار ی تمام بھاگ دوڑ اور کوششیں صرف روپے پیسے سے شروع ہوتی ہیں اور اسی پر ختم ہو جاتی ہیں۔ ہم دوستیوں اور رشتہ داریوں کی بنیاد بھی کسی نا کسی مفاد کی خاطر رکھتے ہیں۔ اپنی اور دوسروں کی زندگیوں کو بدصورت اور تلخ بنانے پر ہمیں افسوس تک نہیں ہوتا۔ ہم ہر وقت دولت اور لالچ کی ہوس میں رہتے ہیں اور ان قمیتی لمحات سے لطف اندوز ہونے کے بجائے ان کو ہمیشہ ہمیشہ کےلیے ضائع کردیتے ہیں جو قدرت نے ہمیں جینے کےلیے عطا کیے ہوتے ہیں۔
نتیجہ: انسانیت خصوصا اپنوں کی قدر کیجئے، ان کے بغیر خوشی اور غم بے معنی ہیں۔ ہمیں چاہئے زندہ اور باشعور انسانوں کی طرح زندگی بسر کریں۔ اس کےلیے ضروری ہے ہم اللہ تعالی کی اس لازوال اور بے مثال نعمت کو محبتوں، چاہتوں اور انسانیت کے نام کریں۔ زندگی کا احترام کریں کہ اس نعمت کی شکرگزاری کا یہی تقاضا ہے۔
ہمیں چاہئے اپنی زندگی کو بامقصد بنائیں۔ اپنی ذات کو دوسرے انسانوں کے لیے رحمت ثابت کریں۔ دوسروں کا احترام کریں، دوسروں کے کام آئیں، دوسروں کیلئے آسانیاں پیدا کریں، لوگوں کی قدر کریں، برداشت کرنا سیکھں زندگی بڑی مختصر ہے، اس کا احترام کیجیے اس کی قدر کیجیے؛ یہ ہمیشہ آپ کے پاس نہیں رہے گی۔
شاعر داود محسن کی اس نظم کے ساتھ اپنے عرائض کا اختتام کرتا ہوں،
آج کے ماحول میں انسانیت بدنام ہے
یہ عناد باہمی کا ہی فقط انجام ہے
حق شناسی کا چلن ہم میں نہیں باقی رہا
صبح اپنی پر الم ہے پر خطر ہر شام ہے
حیف بربادیٔ گلشن اپنے ہی ہاتھوں ہوئی
مفت میں باد خزاں کے سر پہ کیوں الزام ہے
دھندلی دھندلی سی فضا ہے مہر اور اخلاص کی
اب رفاقت آشتی اور دوستی گمنام ہے
تپتے صحرا سے تو بچ کر آ گئے تھے ہم مگر
اب قدم کیسے بڑھائیں پر خطر ہر گام ہے
کیا گرانی اور ارزانی کی ہم باتیں کریں
پانی مہنگا ہے یہاں اور خون سستے دام ہے
باپ سے بچے اے محسنؔ منحرف ہونے لگے
تربیت اور علم کے فقدان کا انجام ہے