اشرف غنی کا دورہ بھارت! پسِ پردہ محرکات؟


اشرف غنی کا دورہ بھارت! پسِ پردہ محرکات؟

چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے میں ایران کی دلچسپی اپنے آپ میں ایک ایسا واحد عمل ہے جس نے پاکستان کے دونوں ہمسایہ ممالک کو پوری دنیا پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون جاری رکھنے کا واضع پیغام دینے پر مجبور کر دیا ہے لیکن محرکات اس کے علاوہ اور بھی بہت سے ہیں۔

پاکستانی تجزیہ کار مسعود چوہدری نے خبررساں ادارے تسنیم کو بھیجے گئے اپنے کالم میں افغان صدر اشرف غنی کے حالیہ ہندوستانی دورے پر روشنی ڈالی ہے۔

انہوں نے لکھا ہے کہ ہندوستان کبھی بھی نہیں چاہے گا کہ دنیا اسے اکیلا ہوتا دیکھے۔ کشمیر ایک ایسا انسانیت سوز مسئلہ ہے جس میں ہندوستانی جارحیت کے واضع ثبوت اب دنیا کے سامنے ہیں۔ اب تک حالیہ قتل عام کے دوران اٹھانوے افراد شہید اور ایک ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ نے دبے الفاظ میں ہی سہی لیکن نوٹس لیا ہے اور لگتا یوں ہے کہ جیسے صاف اور واضع طور پر کہا گیا ہے کہ آپ اپنے مسائل کو سمیٹو وگرنہ ہم کچھ نہ کچھ کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔

گو کہ کشمیر پر پہلے بھی کمیشن بن چکے ہیں اور نتیجہ ہمیشہ صفر ہی رہا ہے لیکن بہر حال بین الاقوامی سطح پر اقوام متحدہ سے بڑا کوئی فورم موجودہ دور میں دستیاب نہیں جو کہ اپنی عمل داری کے بل بوتے پر کشمیر کے نہتے اور پسے ہوئے عوام کو انکا حق خود ارادیت دلا سکے. اشرف غنی کا دورہ بھارت انتہائی واضع پیغام ہے کہ وہ ہندوستان کے ساتھ کھڑے ہیں۔

ہم یہ بخوبی جانتے ہیں کہ افغان حکومت اپنے فیصلے کرنے سے پہلے امریکہ بہادر سے اجازت لیتی ہے اور ماضی میں امریکہ ہندوستان کے مفادات کا تحفظ بھی کرتا آیا ہے۔ اس تمام صورتحال میں بہت ضروری تھا کہ نریندر مودی اور اشرف غنی اکٹھے بغل گیر دکھائی دیتے اور ایک دوسرے کے ساتھ تعاون جاری رکھنے کا اعادہ کرتے جو کہ وہ کرتے نظر آ رہے ہیں۔

یاد رہے کہ عالمی سطح پر کشمیر سے زیادہ افغانستان فیصلہ سازی میں اہمیت رکھتا ہے اور اگر عالمی قوتوں کو دونوں میں سے ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو وہ افغانستان کا انتخاب کریں گے۔ ظاہر ہے کہ پوست کی کمائی زعفران کی کمائی سے کہیں زیادہ فائدہ مند ہے اور انتہائی اہم لوگ اس تجارت سے فائدہ اٹھانے میں کامیاب ہیں۔

ہمارے ذرائع یہ بتاتے ہیں کہ ہندوستان پاکستان میں داعش اور اسکے نیٹ ورک کو پیسے دیتا رہا ہے اور یہ پیسے افغانستان سے ڈالرز کی شکل میں آتے رہے ہیں۔ آج مودی سرکار اور غنی سرکار کے درمیان ایک ارب ڈالر کا ایک ایسا معاہدہ بھی کیا گیا ہے جس کے بارے میں صرف یہ بتایا گیا ہے کہ یہ پیسہ افغانستان کو مستحکم کرنے میں استعمال کیا جائے گا۔ یہ بعید از قیاس نہیں کہ یہ پیسہ ہندوستان میں شورش کے امکانات کو روکنے کی مد میں دیا جا رہا ہو۔ جب آپ کسی کے لئے گڑھا کھودتے ہیں تو ایک دن آپ خود اس میں گر جاتے ہیں، کی مصداق کیرلا ایک ایسی ریاست ہے جو کہ ہندوستان میں جاری علیحدگی کی تحریکوں میں سے ایک کے بالکل ساتھ ہے اور ان تیرہ ریاستوں میں سے ایک ہے جسے ہم ریڈ کوریڈور یا سرخ راہداری کے نام سے جانتے ہیں جو کہ ایک جانب چین اور دوسری جانب تامل ناڈو سے جا ملتی ہے۔

ہندوستان حکومتی ذرائع  سرکاری طور پر تسلیم کرتے ہیں کہ ان ریاستوں  کے 88 ڈسٹرکٹ میں ہندوستان حکومت کی باقاعدہ عملداری موجود نہیں ہے اور ہندوستانی فوج علیحدگی پسند تنظیموں کے خلاف برسر پیکار ہے۔ اس ریاست کی انتیس سالہ خاتون چند روز قبل افغانستان سے ہندوستان میں داخل ہوتے ہوئے گرفتار کی گئی ہے جس نے انکشاف کیا ہے کہ اس کے بائیس ساتھی مرد و خواتین داعش کے ممبر بن چکے ہیں اور افغانستان میں ٹریننگ کر رہے ہیں۔

ہمارے ذرائع کا کہنا ہے کہ نریندر مودی اور اشرف غنی کے درمیان نہ صرف اس اہم معاملے پر بات چیت کی گئی ہے بلکہ اب تک حاصل کردہ اہم اور انتہائی حساس معلومات کا تبادلہ بھی کیا گیا ہے۔

ماضی میں کیرلا کو شورش زدہ علاقہ قرار نہیں دیا گیا تھا لیکن اس نوعیت کے واقعے کے بعد ہندوستان کبھی بھی ایک اور اسٹیٹ یا اس کے چند ڈسٹرکٹ کھونا نہیں چاہے گا۔

کلبھوشن کا معاملہ اگر آپ کے ذہن میں ہو تو وہ بھی یہ اعتراف کر چکا ہے کہ علیحدگی پسندوں اور دہشت گردوں کو پاکستان میں منظم کرنے کے لئے اس نے خاص طور پر کام کیا۔ اب اگر ہندوستان یہ خطرہ محسوس کر رہا ہے کہ داعش اور علیحدگی پسند تنظیموں کا گٹھ جوڑ مستقبل میں خود ہندوستان کے لئے نقصان دہ ہو گیا ہے جسے معاملہ فہمی کے طور پر لیا جا رہا ہے اور اس مسئلے کے سد باب کے لئے سر جوڑ کر بیٹھا گیا ہے تو یہ انہی بیجوں کی شاخیں ہیں جو کہیں اور کسی اور انداز میں بوئی گئی ہیں۔

یہ بھی یاد رہے کہ پچھلے سال ہندوستان نے اعلان کیا تھا کہ وہ افغانستان کو چار روسی ساختہ ایم آئی پچیس حملہ آور ہیلی کاپٹر دے گا جو کہ طالبان کے حکومت سے چلے جانے کے بعد اسلحے کی پہلی کھیپ ہونی تھی۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ اسی سال مئی میں ہندوستان اور افغانستان ایران کے ساتھ سمندری راہداری کا معاہدہ بھی کر چکے ہیں تاکہ ہندوستان افغانستان کو پاکستان کا راستہ استعمال کئے بغیر جو چاہے سپلائی کر سکے۔

یہ معلومات بھی ہمارے قارئین کے لئے دلچسپی کا حامل ہوں گی کہ ہندوستان 2012ء سے اب تک گیارہ ارب ڈالر افغانستان کو فوجی اور دیگر امداد کی مد میں دے چکا ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ اس پیسے کو جن منصوبوں پر خرچ کیا جانا ہے وہ نیٹو فورسز کے افغانستان سے چلے جانے کے بعد شروع کئے جائیں گے۔ چابھار پر ایک سو ملین امریکی ڈالر اور ایک سو پندرہ ملین امریکی ڈالر سے تعمیر کردہ پچیس دسمبر 2015ء کو افتتاح کی جانے والی پارلیمنٹ کی عمارت کی امداد اس کے علاوہ ہے۔

ایران برادر اسلامی ملک افغانستان کے ہندوستان کی نسبت بہر حال زیادہ نزدیک ہے۔ اب ایران نے پاکستان کے ساتھ تجارتی معاہدے پر دستخط کر لئے ہیں اور یقینی طور پر دوستی کے ایک نئے سفر پر چل نکلا ہے۔ ہندوستان ایک مرتبہ پھر خطے میں حسب سابق ایسا کھیل کھیلنا چاہتا ہے جو کہ نہ صرف خطے کے امن کے لئے بلکہ اس کے اپنے لئے بھی نقصان دہ ہے۔ پورے خطے میں پھیلنے والی بے امنی اور نفرت کی گندگی کی بدبو سے ہندوستان خود بھی محفوظ نہیں رہ سکے گا۔ افغانستان کو ایران پاکستان اور چین کے ساتھ بڑھتی دوستی میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کرنے سے باز رہنا چاہئے اور کسی بھی طور ہندوستان کا آلہ کار نہیں بننا چاہئے لیکن ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔

امریکہ اس خطے سے نکلنا چاہتا ہے اور ہندوستان اپنے آپ کو اسکا نعم البدل اور جانشین کے طور پر دیکھتا ہے۔ یہ فکر امریکی حوصلہ افزائی کے بغیر بالکل ممکن نہیں ہے۔ امریکی سیکریٹری خارجہ جان کیری اگست میں اپنے ہندوستان کے دورے کے دوران نہ صرف ہندوستان کی تعریف کر چکے ہیں بلکہ ہندوستان سے اپنے کردار کو جاری رکھنے کا بھی کہہ چکے ہیں۔ یہ واضح کرتا ہے کہ ہندوستان اور امریکہ کے مفادات خطے میں ایک سے نہ سہی لیکن نزدیک ضرور ہیں۔ 

ہندوستان کی بین الاقوامی سیاست پر یہ جملہ بالکل درست اترتا ہے کہ جو آپ سننا چاہیں وہ آپ کو سننے کو ملے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان ڈالر کی گرمائش سے افغان ایمان کو موم کرنے کے درپے ہے۔ یہ معاہدہ جات اگر افغان سرزمین پر کئے جاتے تو نوعیت اور مطالب کچھ اور ہوتے لیکن بھارتی سرزمین پر ان کے مطالب بالکل ہی مختلف ہیں۔

اشرف غنی صاحب کی حکومت بین الاقوامی امداد کی بہر حال محتاج رہتی ہے۔ ایک جانب تو طالبان اور دوسری جانب اندرونی شورش اندانیاں ایسے گمبھیر مسائل ہیں جن کی وجہ سے قوت فیصلہ بہر حال کمزور پائی جاتی ہے۔ پاکستان اور ایران کی جانب سے اقتصادیات اور معیشت میں اپنے پیروں پر کھڑا ہونے میں مدد کے طور پر اکثر مخلص دعوت نامے دئے جا چکے ہیں لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اشرف غنی صاحب کو ہندوستان کے صلاح کاروں کے دئے ہوئے مشورے بہت پسند آتے ہیں۔ انہی مشوروں کا شاخسانہ ہے کہ آج تجارتی توازن نہ ہونے کے برابر اور عوام میں غربت انتہاء سے زیادہ ہے۔ ایسے میں ہندوستان بلا کر امدادی پیکج کا دیا جانا نہ صرف افغان غیرت کو منہ چڑا رہی ہے بلکہ انکی فارن پالیسی پر بہت سنجیدہ اور اہم سوالیہ نشان بھی لگا رہی ہے۔

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری