امام خمینی رہ کے انقلابی نظریات اور اس کے اثرات
جون کا مہینہ سید روح اللہ الموسوی جو 1979 کے انقلاب اسلامی کے بعد آیت اللہ العظمی امام خمینی کے نام سے معروف ہونے والی شخصیت کے ملکوت اعلی کی جانب پرواز کا مہینہ ہے۔
تسنیم خبررساں ادارے کے مطابق، امام خمینی علیہ الرحمہ کی شخصیت اعلم فقیہ، واصل عارف اور با بصیرت راہبر جیسی صفات کی حامل ہے، ایران کی سرزمین پر دو ہزار پانچ سو سالہ پرانی شہنشاہیت کو شکست دینے کے بعد شرق و غرب کی سپر پاورز کا سامنا کرنے والی شخصیت ہے۔
امام خمینی فولادی ارادے کے مالک تھے اور بقول آیت اللہ سید علی خامنہ ای کے اگر دنیا میں کہیں بھی انقلاب اسلامی کا نام لیاجائے تو وہ امام خمینی کے نام کے بغیر شناختہ شدہ نہیں ہے۔
امام خمینی نے انقلاب کی کامیابی کے بعد آٹھ سال تک پوری دنیا کی تا دندان مسلح فوج کے سامنے اپنے نہتے جانثاروں کے ساتھ ایمان کی طاقت پر ایسی مزاحمت دکھائی کہ آج تک پھر دشمن اس انقلاب کے خلاف کسی کھلی جنگ کا سوچ بھی نہیں سکتا ۔
آیت اللہ سید روح اللہ خمینی الموسوی کی عظیم شخصیت نے جہاں ایران کی عوام کو قدیم زمانے سے چلے آنے والے فاسد بادشاہی سلسلے سے نجات بخشی وہیں پوری دنیا کیلئے ایسے روزنہ دیوار ہدایت ثابت ہوئے کہ جس نے گھٹاٹوپ اندہیروں میں روشنی کی شمع روشن کر دی ۔
جس دور میں ایران کی سرزمین پر اسلامی انقلاب اپنی کامیابی کو پہنچا اس دور میں پوری دنیا دو بلاکس میں منقسم تھی ، سوشلسٹ رشین بلاک اور کیپٹلسٹ امریکن بلاک۔
دنیا میں بھی کوئی یہ تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ کوئی ایسی تحریک بھی ہو سکتی ہے کہ جو نہ سوشلسٹ بلاک سے وابستہ ہو اور نہ امریکن بلاک سے۔
اس فضا میں انقلاب اسلامی "لاشرقیہ و لا غربیہ" کے شعار کے ساتھ اپنی کامیابی کو پہنچ رہا تھا جس سے ان دونوں بلاکس نے خطرے کا احساس کیا اور اس ننھی سے شمع کو خاموش کرنے کیلئے پوری دنیا کی طاقتیں عراق کے مغرور ڈکٹیٹر صدام حسین کی پشت پر کھڑی ہو گئیں، لیکن ان کو کیا علم تھاکہ" وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے"۔
انقلاب کی کامیابی کے فورا بعد ایران پر مسلط کردہ جنگ کے مقابلے کیلئے مختلف نظریات موجود تھے ، ایران کے اندر سب سے زیادہ ووٹ لے کر پریزیڈنٹ بننے والے بنی صدر کا خیال تھا کہ زمین کے بدلے وقت لینا چاہیئے اور اسی پالیسی کے تحت ایران کی فوج جو ابھی تک انقلاب کے بعد تبدیل ہونے والی شرائط کے ساتھ اپنے آپ کو ایڈجیسٹ کرنے کا سوچ رہی تھی وہ صدام کے مقابلے میں کوئی خاطر خواہ جواب نہ دسے سکی اور صدامی فوجیں ایران کے سرحدی علاقوں میں داخل ہو گئیں ۔
امام خمینی نے عظیم فتوی صادر کیا کہ جو کوئی بھی دفاع کی طاقت رکھتا ہے محاذ پر جائے اور یوں پوری دنیا کی طاقتوں کے مقابلے میں اب انقلابی فکرسے سرشار عظیم جذبے کے تحت پوری دنیا سے الہی نوجوانوں نے قیام شروع کر دیا ۔
امام خمینی علیہ الرحمہ کی اس انقلابی فکر نے جہاں ایران کو نجات بخشی وہیں پوری دنیا میں اسلامی تحریکوں کے لئے نسیم بہار ثابت ہوئی، انقلاب اسلامی سے پہلے ایران خطے میں اسرائیل کا رفیق کار تھا اور اب امام خمینی کی قیادت میں انقلاب کی کامیابی کے بعد ایران نے اعلان کر دیا کہ ہم اسرائیل کو قبول نہیں کرتے۔
امام خمینی نے جہاں دوسرے مقامات پر اپنے آپ کو رائج ڈپلومیٹک رسوم و رواج سے بالاتر قرار دیتے ہوئے حقیقی انقلابی راہبر کا کردار پیش کیا کہ جس کی مثال سلمان رشدی جیسے ملعون کے قتل کے فتوی کی صورت میں دی جا سکتی ہے، وہیں امام خمینی کی انقلابی افکار کا فیض فلسطین کے مظلوم مسلمانوں تک بھی پہنچا اور امام خمینی نے وہ عظیم جملہ بیان فرمایا کہ "اسرائیل باید از صفحہ روزگار محو شد" یعنی اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹ جانا چاہیئے۔
ایران کے اندر موجود سفارتی آداب و تعلقات اور بین الاقوامی روابط کی فکر کے حامل متفکر مزاج راہنماوں کیلئے بھی اگرچہ یہ بات سخت گذری اور انکی متعدد کوششوں کے باوجود امام خمینی اپنے اس انقلابی موقف سے کبھی پیچھے ہٹنے کیلئے تیار نہ ہوئے اور اس فکر کا پہلا نتیجہ یہ نکلا کہ تہران میں واقع عظیم اسرائیلی سفارت خانہ کو ختم کر کے اس بلڈنگ کو فلسطینی سفارت خانہ میں تبدیل کر دیا گیا۔
پی ایل او کے راہنما یاسر عرفات امام خمینی کی زیارت کے لئے تہران آئے اور یوں پوری دنیا میں موجود اسلامی تحریکوں کو ایک نیا افق نظر آنا شروع ہوا اور اس نسیم سحر گاہی کے ساتھ پوری دنیا کی اسلامی تحریکوں میں زندگی کی نئی لہر دوڑ گئی ۔
افکار امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کی بنیاد اس بات پر استوار تھی کہ دین اور سیاست ایک دوسرے سے جدا نہیں ہیں، کئی ہزار سالہ سامراجی اور صیہونی محنت کے نتیجہ میں یہ نظریہ قائم کیا گیا تھا کہ دین کو سیاست سے کوئی واسطہ نہیں ہے، اگر دین سیاست کے کاموں میں مداخلت کرے گا تو دین نجس ہو جائے گا اور سیاست جیسے گناہ سے آلودہ ہو جائے گا لہذا دینی علما کو اپنی مساجد اور مدارس میں اللہ اللہ کرنا چاہیئے اور سیاسی مسائل میں مداخلت نہیں کرنی چاہیئے۔
اگر دنیا کے ایک جانب سے مارکس دین کو معاشرے کیلئے افیون قرار دے رہا تھا دوسرے جانب لین دین کو معاشرے سے ختم کرنے کے نت نئے طریقوں پر غور کر رہا تھا لیکن عین اسی زمانے میں خمینی کے افکار کا سورج طلوع ہوا اور امام نے ان تمام باطل نظریوں کے مقابلے میں "دین عین سیاست و سیاست عین دیانت" کا نظریہ پیش کردیا ۔ اگرچہ امام کے دین و سیاست کے اتحاد کے نظریہ کو بہت شہرت ملی لیکن درحقیقت اس کے پیچھے ایک اور نظریہ کار فرما تھا اور وہ یہ تھا کہ گذشتہ ادوار میں علما اس بات کے قائل تھے کہ سیاسی مسائل میں مداخلت چونکہ امربالمعروف و نہی از منکر کے باب کے سے ہے اور امر بالمعروف و نہی از منکر کیلئے بنیادی شرط قدرت یعنی طاقت کا ہونا ہے۔
لہذا جب تک طاقت بمعنای استطاعت موجود نہ ہو اس وقت تک امر بالمعروف و نہی از منکر ساقط ہے لہذا سیاست میں دخالت دین اور علمائے دین کی ذمہ داری نہیں ہے، لیکن اس کے مقابلے میں امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کا نظریہ اس سے مختلف تھا ، ان کے مطابق اگرچہ طاقت امربالمعروف کیلئے بنیادی شرط ہے لیکن اس طاقت و قوت کا حصول بھی ہماری ذمہ داری ہے۔
علمی زبان میں یعنی طاقت کا حصول مقدمہ وجوب نہیں ہے بلکہ مقدمہ واجب ہے۔
جس طرح وضو نماز کیلئے مقدمہ ہے اور اگر پانی میسر نہ ہو تو اس پانی کی تلاش ضروری ہے اسی طرح اگر امربالمعروف کیلئے قوت موجود نہ ہو تو اس قوت کا حصول بھی ضروری ہے پس قوت کو حاصل کرنے کیلئے دین سیاست سے جدا نہیں رہ سکتا بلکہ اس سے بڑھ کر امام خمینی علیہ الرحمہ کی نگاہ میں دین و سیاست دو الگ الگ چیز نہیں ہیں بلکہ دین وہی سیاست ہے، اس سے مراد یہ ہے کہ دین کو خدا نے دنیا میں اس لئے نہیں بھیجا کہ وہ کتابوں کی صورت میں طاقچو ں کی زینت رہے یا علم کی صورت میں علما کے سینوں میں محبوس رہے بلکہ خدا نے دین کو دنیا میں رائج اور نافذ ہونے کیلئے بھیجا ہے ۔
امام خمینی کے یہی انقلابی افکار تھے جنہوں نے پوری دنیا میں ہدایت کے نئے چراغ جلا دیئے، اگرچہ محمد اقبال لاہوری علیہ الرحمہ جیسے راہروان ہدایت "جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی" کے شعار کے ساتھ قوم کو جگانے کیلئے مسلسل کوشش میں تھے لیکن ان کو بھی قوم کی بیداری کیلئے بیدار گر کی انتظار "تہران ہو گر عالم مشرق کا جنیوا شاید کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے" سے تھی اسی وجہ سے تو " چون چراغ لالہ سوزم در خیابان شما" میں کہتے ہیں کہ "می رسد مردی کہ زنجیر غلامان بشکند دیدہ ام از روزن دیوان زندان شما"۔
اور بالاخر یہ مرد تہران کے مشرق سے طلوع ہوا اور اس نے اپنے افکار کے ساتھ ایک ہزار چار سو سالوں تک استکبار و استعمار و یہود کے بنے ہوئے مکڑی کے جال کو توڑ ڈالا اور پوری دنیا کی اقوام کو درس بیداری دے گیا ۔