دعوت ملی تو پاکستان کا دورہ کریں گے، طالبان


طالبان کے دفترسے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ اگر انہیں دورہ پاکستان کی دعوت ملی تو وہ اسے قبول کریں گے۔

تسنیم خبررساں ادارے نے عالمی ذرائع کے حوالے سے خبر دی ہے کہ قطر کے دارالحکومت اور افغان امن عمل میں توجہ کا مرکز بننے والے شہر دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے کہا کہ رسمی طور پر پاکستان کی طرف سے دعوت موصول ہونے پر وہاں جائیں گے۔

طالبان کے ترجمان نے کہا کہ ہم خطے کے ہمسایہ ممالک کا دورہ کرتے ہیں اور پاکستان بھی ہمارا ہمسایہ اور ایک اسلامی ملک ہے۔

ترجمان سے پوچھے گئے سوال کہ ’طالبان پر یہ الزامات ہیں کہ وہ پاکستان کی پراکسی ہیں اور کیا اس دورے سے ان پر مزید الزامات نہیں لگیں گے؟ تو اس پر سہیل شاہین نے جواب دیا کہ جن لوگوں کے پاس طالبان کے خلاف جھگڑے کے لیے کوئی دوسری دلیل نہیں وہ ایسے الزامات لگائیں کیونکہ ماضی میں بھی ایسا ہوا ہے اور مستقبل میں بھی یہ ہوگا۔

اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمارے اسلامی اور قومی مفاد ہیں، جس میں کسی کو مداخلت نہیں کرنے دیتے تاہم جہاں تک دیگر ممالک سے رابطے کی بات ہے تو ہم ایسا چاہتے بھی ہیں اور ہمارے رابطے بھی ہیں۔

افغان امن عمل سے متعلق طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان کا کہنا تھا کہ بیرونی قوتوں سے مذاکرات میں کامیابی کے بعد افغان حکومت سمیت دیگر افغان فریقین سے بھی ملاقات کی جائے گی۔

سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ افغانستان کے مسئلے کو ہم نے 2 مراحل اندرونی اور بیرونی میں تقسیم کیا ہے، پہلے مرحلے میں جاری مذاکرات اب اختتام کو پہنچنے والے ہیں، اگر یہ مذاکرات کامیاب ہوگئے تو پھر دوسرے مرحلے کی جانب بڑھیں گے، جس میں تمام افغان فریقین سے بات ہوگی اور افغان حکومت اس عمل میں ایک فریق کے طور پر شامل ہوسکتی ہے۔

قیدیوں کے تبادلے سے متعلق سوال پر ترجمان کا کہنا تھا کہ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ قیدیوں کا تا بدلہ ہو اور ان کے گرفتار ساتھی رہا ہوں، ماضی میں بھی یہ عمل ہوا ہے اور اب بھی ہم کوشش کرتے ہیں، تاہم اگر اس معاملے میں کوئی اپنا کردار ادا کرنا چاہتا ہے تو یہ اچھا ہے۔

یاد رہے کہ افغانستان میں جاری 17 سال سے زائد عرصے سے جاری طویل جنگ کے خاتمے کے لیے امریکا کوششوں میں مصروف ہے اور اس سلسلے میں اس کے طالبان سے کئی مرتبہ مذاکرات ہوچکے ہیں۔

اس مذاکرات میں افغان حکومت کو شامل نہیں کیا گیا کیونکہ طالبان انہیں کٹھ پتلی حکومت کہتے ہیں اور وہ براہ راست امریکا سے مذاکرات کا مطالبہ کرتے آئے تھے۔

تاہم اس تمام صورتحال میں پاکستان کا کردار بہت اہم رہا ہے اور وہ افغانستان میں پائیدار اور مستقل امن اور افغان تنازع کے حل کے لیے اپنی کوششیں کر رہا ہے۔

اسی ضمن میں حال ہی میں امریکا کے دورے کے دوران وزیر اعظم عمران خان نے واشنگٹن میں کہا تھا کہ وہ وطن واپس پہنچ کر افغان طالبان سے ملاقات کر کے انہیں امن مذاکرات کے لیے قائل کرنے کی کوشش کریں گے۔

امریکی تھنک ٹینک سے خطاب کے بعد ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا تھا کہ ان کی طالبان سے پہلے ملاقات نہیں ہوئی لیکن اب امریکا میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات اور افغانستان کے صدر اشرف غنی سے رابطے کے بعد وہ طالبان سے ملاقات کرکے انہیں براہ راست مذاکرات کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کریں گے۔

عمران خان نے کہا تھا کہ چند ماہ قبل طالبان نے مجھ سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا تھا لیکن اس وقت افغان صدر اشرف غنی نہیں چاہتے تھے کہ میں ملاقات کروں۔

ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی واضح کیا تھا کہ وہ طالبان کو افغان حکومت کے ساتھ امن مذاکرات کے لیے آمادہ کریں گے جبکہ طالبان کو بھی انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت ملنی چاہیے کیونکہ افغانستان میں پائیدار امن کا تعلق جہموریت کے استحکام سے وابستہ ہے۔