چھری کی دھار سے کٹتی نہیں چراغ کی لو / علامہ شہید عارف الحسینی کی شہادت کے حوالے سے + تصاویر
علامہ شہید عارف الحسینی کی شخصیت کی صحیح شناخت کے لئیے اس زمان و مکان اور حالات کو سمجھنا ضروری ھے جس میں انہوں نے اپنی زندگی بسر کی ہے۔
شہید علّامہ عارف حسین حسینی نے جس زمانے میں نجف اشرف میں قدم رکھا اس زمانے میں نجف امام خمینی (رح) کی دینی اور سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنا ہوا تھا، چنانچہ شہید علّامہ عارف حسین حسینی بھی امام خمینی (رح) کے افکار و کردار سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور یوں آپ نے اسی زمانے سے ہی امام خمینی (رح) کے افکار و نظریات کی ترویج شروع کردی۔ جس کی بنا پر عراق کی حکمراں جماعت بعث پارٹی نے سنہ 1975 میں شہید علّامہ عارف حسین حسینی کو سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے جرم عراق سے نکال دیا۔ یوں شہید علّامہ عارف حسینی اپنے مرجع و رہبر اور استاد و راہنما سے جغرافیائی لحاظ سے تو کوسوں دور ہوگئے مگر آپ کا دل بدستور امام خمینی (رح) کے ساتھ تھا، یہ وہ زمانہ تھا جب ایران میں شاہ ایران کے خلاف امام خمینی (رح) کی تحریک بھی زور پکڑتی جارہی تھی، لہذا شہید عارف حسینی نے پاکستان میں اپنے قیام کو مناسب نہیں سمجھا اور امام خمینی (رح) کے ایک سچے سپاہی کی مانند قم تشریف لے آئے اور یہاں پہنچ کر آپ نے حصول علم کے ساتھ ساتھ بھرپور طریقے سے شاہ ایران کے خلاف جاری تحریک میں حصّہ لیا۔
یہاں بھی آپ کو اسی مشکل کا سامنا کرنا پڑا جس سے آپ عراق میں دوچار ہوچکے تھے ، یوں آپ کو شاہ کی خفیہ پولیس ساواک نے طلب کرکے آپ سے اس بات کا عہد لینے کی کوشش کی آئندہ سیاسی سرگرمیوں میں حصّہ نہیں لیں گے، لیکن شہید عارف حسین حسینی جو مکتب حسینی کے پروردہ اور امام خمینی (رح) کے پیرو تھے بھلا کیسے ساواک کے ساتھ سمجھوتہ کرلیتے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ساواک نے آپ کو ایران سے نکال دیا۔ یوں آپ بادل نخواستہ، رضا شاہ پہلوی کی ظالم و جابر حکومت کے خلاف امام خمینی (رح) کی عظیم الشان اور تاریخ ساز تحریک کو جو اپنے آخری مراحل طے کررہی تھی۔ چھوڑ کر پاکستان آگئے، لیکن آپ نے امام خمینی رح سے اپنا ناطہ نہیں توڑا۔ اس دوران پاکستان میں فوجی آمریت نے ملک میں بیرونی ایجنڈے کے تحت وہابیت کو فروغ دینا شروع کیا اور آل سعود کے ساتھ تعلقات کو خاص مقاصد کے لئے بڑھاوا دیا۔ افغان جہاد کے نام پر انتہاپسندوں کو کھلی چھوٹ دیدی گئی، جنہوں نے سارے ملک میں ہی ڈیرے جمالئے، آمریت کے حامی مذہبی حلقے اور شخصیات کو اوپر لایا گیا اور جس نے بھی آمریت کا ساتھ نہیں دیا اس کو بلااستثنا مذہب و مسلک دیوار سے لگادیا گیا۔
علامہ شھید عارف حسین حسینی کا نام بحیثیت ایک شیعہ رہنما اس وقت سامنے آیا جب نام نہاد مجاہدین کے ایک لشکر نے پارا چنار پر چڑھائی کی، لیکن الحمد اللہ شہید قائد کی بصیرت اور آپ کے دوستوں اور چاہنے والوں کی استقامت کے سبب پاراچنار پر قبضے کی سازش ناکام ہوگئی اور صدر جنرل محمد ضیاالحق علامہ عارف حسین حسینی سے مذاکرات اور ان کی شرائط ماننے پر مجبور ہوگئے، (اس واقعے کی تفصیلات کی ضرورت ہے) بہرحال ریڈیو پاکستان سے اس بارے میں ایک خبر نشر کی گئی اور بتایا گیا شیعہ رہنما علامہ عارف حسین حسینی اس وقت اسلام آباد میں ہیں اور صدر پاکستان جنرل ضیاالحق سے ان کی ملاقات ہونے والی ہے۔
شہیدعلامہ عارف حسین حسینی کو 10 فروری سن 1984 قائد تحریک مولانا مفتی جعفر صاحب کی رحلت کے بعد ملت جعفریہ کا قائد منتخب کرلیا گیا۔ اگرچہ اس دوران اسٹبلشمنٹ نے بڑی مہارت سے ایک خود ساختہ قیادت کو سامنے لا کر ملت جعفریہ کا سیاسی وزن کم کرنے کی کوشش کی تاہم اسے اس مقصد میں کامیابی حاصل نہ ہوسکی اور تمام تر کوششوں کے باوجود حامد علی شاہ کا قد جتنا تھا اس میں اضافہ کرنے کے لئے اسٹلشمنٹ کو بری طرح سے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ جبکہ علامہ عارف حسین حسینی کی قدآور شخصیت حکومتی دباؤ اور منفی پروپگنڈے کے باوجود بڑھتی چلی گئی۔
قیادت کے بعد علامہ عارف حسین حسینی کے ملک کے مختلف شہروں کے دورے اس بات کے گواہ ہیں کہ آپ کی شخصیت آپ کے افکار کی بدولت لوگوں خصوصا نوجوان طبقے میں گھر کرگئی تھی اور ملک کا آمریت مخالف سیاسی اور مذھبی طبقہ بھی آپ کی شخصیت سے متاثر ہوتا دکھائی دے رہا تھا، آپ جہاں بھی جاتے ہرطبقے کے لوگ آپ بہت جوش و ولولے کے ساتھ آپ کا استقبال کرتے، آپ نے فوجی آمریت کے خاتمے اور ملک میں جمہوریت کی بحالی کے لئے چلائی جانے والی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا اس دوران بارہا آپ کو نظربند کیا گیا، شہر بدر اور بعض شہروں میں داخلے پر پابندی آپ کی سیاسی سرگرمیوں کا ہی نتیجہ تھی، دوسری طرف آپ نے اتحاد بین المسلمین کا جو نعرہ بلند کیا، اسے ملک میں امام خمینی کی آواز کی بازگشت سمجھا گیا، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس وقت کے بعض آمریت نواز نام نہاد ملاّؤں نے اپنے بیانات اور اعلامیوں میں علامہ عارف حسین حسینی کو "خمینی کا ایجنٹ" کہہ کر پکارنا شروع کیا، ان کم ظرفوں کو پتہ ہی نہیں تھا کہ شہید رابع آیت اللہ باقر الصدر کے بقول علامہ عارف حسین حسینی امام خمینی کی ذات میں اسطرح ضم ہوگئے تھے جس طرح امام خمینی اسلام میں ضم ہوچکے تھے۔ علامہ عارف حسین حسینی نے اتحاد بین المسلمین کے لئے جو اقدامات کئے اس کا نتیجہ ہمیں چھ جولائی سنہ 1987 کو لاہور میں ہونے والی تاریخی قرآن و سنت کانفرنس میں دیکھنے کو ملا، آپ نے قرآن سنت کانفرنس لاہور میں تحریک جعفریہ کا انقلابی منشور پیش کرکے اہل تشیع کے بارے میں جو شکوک شبہات اہلسنت برادران میں پائے جاتے تھے انہیں دور کردیا۔ شہید علّامہ عارف حسینی کے یہی افکار و نظریات اسلام دشمن قوتوں خصوصا امریکہ کے لئے ناقابل قبول تھے اور وہ ان کو اپنے مفادات کے لئے خطرہ سمجھتے تھے۔ اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوریہ سے امریکہ اور اس حواریوں کو جو مار پڑی تھی اس کا صدمہ انہیں ابھی بھولا نہیں تھا، لہذا ایسے ہر شخص کو جو امام خمینی (رح) کے اعلی انقلابی و اسلامی افکار کا پیرو اور مروّج ہو اسے راستے سے ہٹانے کا فیصلہ وہ بہت پہلے کرچکے تھے۔
عراق میں شہید باقر الصدر اور انکی ہمشیرہ محترمہ بنت الہدی کی شہادت نیز لبنان کے مجاہد عالم دین امام موسی صدر کی پراسرار گمشدگی طاغوتی طاقتوں کے اسی فیصلے کا نتیجہ ہے جس کے تحت علامہ عارف حسین حسینی کو بھی شہید کر دیا گیا۔