حضرت خدیجۃ الکبری، عظیم المرتبت خاتون
حضرت خَدیجَہ بنت خُوَیلِد، خدیجۃ الکبری و ام المومنین کے نام سے مشہور، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اولین زوجہ اور حضرت زہرا سلام اللہ علیھا کی مادر گرامی ہیں۔ آپ نے بعثت سے پہلے حضرت محمدؐ کے ساتھ شادی کی۔ آپ آنحضرت پر ایمان لانے والی پہلی خاتون ہیں۔
✍️تحریر: رضوان نقوی
تسنیم خبررساں ادارہ: حضرت خدیجہ سلام اللہ علیھا کی زندگی اور شخصیت کے بارے میں، خاص کر قبل از اسلام کے زمانہ سے متعلق تفصیلات تاریخ میں نہیں ملتیں، لیکن مختصر جو نقل کیا گیا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے آپ اپنے زمانے کے لوگوں میں ایک عقلمند، دانا، مدبر اور با بصیرت خاتون تھیں- حضرت خدیجہ سلام اللہ علیھا کے اخلاقی فضائل میں سخاوت، جاں نثاری، عفت و پاکدامنی، دور اندیشی، صبر و شکیبائی اور استقامت ایسے اوصاف ہیں جن کا تمام مورخین نے اعتراف کیا ہے۔
حضرت خدیجہ سلام اللہ علیھا اپنے زمانے کے لوگوں میں ایک پاکدامن، خیر خواہ اور بلند مرتبہ خاتون کی حیثیت سے مشہور تھیں۔ انہیں "طاہرہ" کے لقب سے بھی نوازا گیا تھا- اس سلسلہ میں نقل ہوا ہے: "و کانت تُدعی فی الجاهلّیة بالطّاهره لشدّة عفافها و صیانتها" لوگوں نے ایام جاہلیت میں، حضرت خدیجہ کی عفت و پاکدامنی میں بلند مرتبہ ہونے کی وجہ سے انھیں " طاھرہ" کے لقب سے نوازا تھا- اس کے علاوہ "سیدہ قریش" کا لقب بھی آپ کو دیا گیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت خدیجہ اپنے زمانے کے لوگوں میں کس قدر بلند اور باعظمت مقام پر فائز تھیں-
حضرت خدیجہ سلام اللہ علیھا ایک کامیاب تاجرہ ہونے کے باوجود اپنا کچھ وقت عبادت، خاص کر طواف کعبہ کے لئے مخصوص رکھتی تھیں- اس کے علاوہ ان کے گھر کا دروازہ حاجتمندوں اور فقیروں کے لئے ہمیشہ کھلا رہتا تھا اور کبھی کوئی محتاج ان کے گھر سے خالی ہاتھ اور محروم نہیں لوٹا-
حضرت خدیجہ ؑ نے اپنی ساری دولت اسلام کی راہ میں خرچ کی۔ پیغمبر اکرمؐ نے حضرت خدیجہ ؑ کے احترام میں ان کی زندگی کے دوران دوسری زوجہ اختیار نہیں کی اور آپ کی وفات کے بعد بھی آپ کو اچھے الفاظ میں یاد فرماتے تھے۔
حضرت خدیجہ ؑ کی مالی امداد کی بدولت رسول خداؐ تقریبا غنی اور بے نیاز ہو گئے۔ پروردگار آپؐ کو اپنی عطا کردہ نعمتوں کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے: وَ وَجَدَکَ عَائِلاً فَأَغْنَى اور اللہ نے آپ کو تہی دست پایا تو مالدار بنایا۔ رسول خداؐ خود بھی فرمایا کرتے تھے: "ما نَفَعَنِی مالٌ قَطُّ ما نَفَعَنی مالُ خَدیجة" کسی مال نے مجھے اتنا فائدہ نہیں پہنچایا جتنا فائدہ مجھے خدیجہ ؑ کی دولت نے پہنچایا۔ رسول خداؐ نے خدیجہ ؑ کی ثروت سے مقروضوں کے قرض ادا کئے؛ یتیموں، تہی دستوں اور بے نواؤں کے مسائل حل کئے۔
شعب ابی طالب ؑ کے محاصرے کے دوران حضرت خدیجہ ؑ کی دولت بنی ہاشم کی امداد میں صرف ہوئی۔ یہاں تک کہ احادیث میں آیا ہے: "أنفق أبو طالب وخدیجة جمیع مالہما" ابو طالب ؑ اور خدیجہ ؑ نے اپنا پورا مال اسلام کی راہ میں خرچ کر دیا۔ شعب ابی طالب ؑ میں محاصرے کے دوران حضرت خدیجہ ؑ کا بھتیجا حکیم بن حزام گندم اور کھجوروں سے لدے ہوئے اونٹ لایا کرتا تھا اور بے شمار خطرات اور زحمت و مشقت سے بنی ہاشم کو پہنچاتا تھا۔ یہ بخشش اس قدر قابل قدر اور خالصانہ تھی کہ خداوند عالم نے اس کی قدر دانی کرتے ہوئے اس نیک کام کو اپنی طرف سے اپنے حبیب حضرت محمدؐ کو عطا کردہ نعمات میں شمار فرمایا۔ پیغمبر اکرمؐ بھی اس عظیم المرتبت خاتون کی بخشندگی اور ایثار کو ہمیشہ یاد فرماتے تھے۔
حضرت خدیجہ باعظمت، مالدار اور اپنے زمانے کی مؤثر خواتین میں سے تھیں۔ جابر بن عبداللہ انصاری، پیغمبر اکرمؐ سے منقول ایک حدیث میں حضرت خدیجہ، حضرت فاطمہ، حضرت مریم اور حضرت آسیہ کو عالمین کی عورتوں کی سرادار قرار دیتے ہیں۔ اسی طرح پیغمبر اکرمؐ حضرت خدیجہ کو دنیا کی با کمال اور بہترین خاتون قرار دیتے ہیں۔ حضرت خدیجہ کو طاہرہ، زکیہ، مرضیہ، صدیقہ، سیدہ نساء قریش، خیرالنساء اور باعظمت خاتون کے القاب اور ام المؤمنین کی کنیت سے یاد کرتے ہیں۔
متعدد روایات میں پیغمبر اکرمؐ کے نزدیک حضرت خدیجہ کے خاص مقام و منزلت کی طرف اشارہ ہوا ہے۔ حضرت خدیجہ پیغمبر اکرم کے لئے بہترین اور صادق ترین وزیر اور مشاور کی حیثیت رکھتی تھیں۔ نیز آپ حضورؐ کے لئے سکون دل کا باعث بھی تھیں۔ پیغمبر اکرمؐ آپ کے وصال کے سالوں بعد بھی آپ کو یاد فرماتے ہوئے، آپ کو بے نظیر اور بے مثال خاتون قرار دیتے تھے۔
جب حضرت عائشہ نے پیغمبر اکرمؐ سے کہا کہ خدیجہ آپ کے لئے ایک بوڑھی زوجہ سے زیادہ کچھ نہیں تھی، تو پیغمبر اکرمؐ بہت ناراض ہوئے اور فرمایا: "خدا نے میرے لئے خدیجہ سے بہتر کوئی زوجہ عطا نہیں فرمائی، اس نے اس وقت میری تصدیق کی جب میری تصدیق کرنے والا کوئی نہیں تھا، اس نے اس وقت میری مدد کی جب میری مدد کو کوئی حاضر نہیں تھا اور اس وقت اپنی دولت کا مکمل اختیار مجھے دے دیا جب دوسرے مجھے اپنی دولت سے دور رکھتے تھے۔
حضرت خدیجہ سلام اللہ علیھا نے اپنی ساری دولت اور سرمایہ کو پیغمبر اسلام کی خدمت میں ھدیہ کے طور پر پیش کیا، تاکہ آپ اسے اپنی مصلحت کے مطابق اسلام کی ترویج اور مسلمانوں کے تحفظ کے لئے خرچ کریں۔
حضرت خدیجہ سلام اللہ علیھا خدا پر ایمان کے بعد دل و جان سے رسول خدا پر ایمان و اعتقاد رکھتی تھیں۔ آپ رسول خدا کے دستورات، نصیحتوں اور فرمودات کی من و عن اطاعت کرتیں اور انھیں عملی جامہ پہناتی تھیں- حضرت خدیجہ کی اطاعت اور وفاداری کے سبب پیغمبر اکرم آپ کا دل سے احترام کرتے اور آپ کی وفات کے بعد بھی آپ کو بہت یاد کرتے تھے۔
حضرت خدیجہ سلام اللہ علیھا فراوان مال و دولت کی مالک ہونے اور اس زمانے کے معاشرے میں سماجی مقام و منزلت رکھنے کے باوجود رسول خدا کے ساتھ برتاو اور رفتار و گفتار میں ہمیشہ اپنے آپ کو حضور کی ایک معمولی کنیز سمجھتی تھیں۔
تمام مورخین اور اسلام شناسوں کا اعتراف ہے کہ حضرت خدیجہ کی دولت ان موثر عوامل میں سے ایک اہم عامل تھی جس نے اسلام کی ترویج اور اس کے پھیلنے میں کلیدی اور بنیادی کردار ادا کیا- مسلمان جس دوران شعب ابیطالب میں کئی برسوں تک انتہائی سخت اور مشکل اقتصادی محاصرے میں تھے، اس دوران حضرت خدیجہ کی دولت اور سرمایہ نے مسلمانوں کی جان کو بچانے میں کلیدی اور اہم کردار ادا کیا-
بیشک حضرت خدیجہ سلام اللہ علیھا کی دولت، اسلام کی ترویج اور پھیلاو میں اس قدر موثر تھی کہ حضرت علی علیہ السلام کی تلوار کے برابر قرار پائی- قدیم زمانہ سے مشہور تھا کہ اسلام ابتداء میں پیغمبر اسلام کے نیک اخلاق، حضرت علی کی مجاہدت و تلوار اور حضرت خدیجہ کی ثروت و جاں نثاری کی وجہ سے مستحکم ھوکر پھیلا ہے-
پیغمبر اسلام ہمیشہ اسلام کے پھیلاو میں حضرت خدیجہ کے مال کا ذکر کرتے ھوئے فرماتے تھے: خدیجہ کے مال کے برابر کوئی مال میرے لئے منافع بخش نہیں تھا-
پیغمبر اسلام نے حضرت خدیجہ کے مال سے بہت سے لوگوں کا قرضہ ادا کیا، حاجتمندوں کی مدد کی، بے سہاروں اور یتیموں کی نصرت فرمائی- پیغمبر اسلام ایک دوسرے موقع پر فرماتے ہیں:" ایدتنی علی دین اللہ و اعانتنی علیہ بھا لھا" خدیجہ نے دین خدا کے سلسلہ میں میری مدد کی اور اپنے مال سے میری نصرت کی-
حضرت خدیجہ سلام اللہ علیھا کی عظمت اس سے زیادہ کیا ہو سکتی ہے کہ دنیا کی سب سے با فضیلت اور برتر خاتون نے آپ کے دامن میں ولادت پائی۔ پروردگار نے ائمہ معصومین اور زمین پر اپنی حجت کو آپ کی نسل سے قرار دیا۔ امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی پرورش بھی آپ کے گھر میں ہی ہوئی۔ حضرت خدیجہ مولا علی سے بہت محبت کرتیں اور ان کا بہت خیال رکھتی تھیں۔ حضرت علی بھی آپ کو اپنی ماں کہہ کر پکارتے اور آپ کا بہت احترام کرتے تھے۔ جب آپ دنیا سے رحلت فرما گئیں تو حضرت علی نے فرمایا کہ آج میں اپنی ماں سے محروم ہو گیا ہوں۔
حضرت خدیجہ سلام اللہ علیھا راسخ دینی اعتقادات، خاندانی شرافت اور سماجی شخصیت کی مالک تھیں۔ آپ کا قول و فعل، دوسروں کا احترام اور عالی ادب آپ کی ذات کا حصہ تھا- آپ اسلام سے پہلے بھی تاجروں، کارکنوں اور ہمسایوں کے ساتھ ادب و احترام سے پیش آتی تھیں-
حضرت خدیجہ کی پیغمبر اسلام کے ساتھ پچیس سالہ مشترک زندگی کا زمانہ، سخت ترین اور مشکل ترین دور تھا- کفار و مشرکین کی طرف سے آپ کو شدید آزار و اذیت پہنچائی جاتی۔ شعب ابی طالب میں محاصرے کا تین سالہ دور آپ کے لئے بہت سخت اور ناقابل برداشت تھا، لیکن آپ نے ان مشکلات میں صبر و بردباری کا مظاہرہ کیا اور کبھی شکوہ نہیں کیا۔
حضرت خدیجہ نے اپنی نشیب و فراز والی پوری زندگی کے دوران، جب کفار مکہ کی طرف سے آپ کو بےحد اذیت و آزار پہنچایا جاتا تھا، صبر و شکیبائی کا دامن نہیں چھوڑا، اور کبھی زبان سے شکوے نہیں کیا، جو پیغمبر اکرم کے رنج والم میں اضافے کا سبب بنے۔
حضرت خدیجہ انتہائی باھوش، زیرک اور صاحب بصیرت خاتون تھیں- آپ نے اپنے زمانے کے جہالت سے بھرے معاشرے میں جب عورت، کوئی اجتماعی حیثیت اور شخصیت نہیں رکھتی تھی، اپنے لئے انفرادی اور اجتماعی لحاظ سے ایک بلند اور ممتاز مقام پایا-
یہ با عظمت خاتون، جہالت و بت پرستی کے تاریکی دور میں بھی اپنی دقیق بصیرت سے پیغمبر آخرالزمان کی معرفت حاصل کر چکی تھیں۔ آپ کی رسول اللہ کے ساتھ ازدواجی زندگی، شوہر داری، تربیت اولاد، ہمسایوں اور تازہ مسلمانوں حتی مشرکین کے ساتھ آپ کا برتاو ایک بے مثال شخصیت کی عکاسی ہے۔ اسی لئے رسول اکرم نے ہمیشہ آپ کے فقدان کو محسوس کیا اور آپ کو نیک الفاظ سے یاد فرماتے رہے-
حضرت خدیجہ کا گھر، اسلام کے ان اہم مکانوں میں سے ہے جس میں بہت سی تلخ و شیرین تبدیلیاں اور حوادث رونما ہوئے۔ یہ گھر مسلمانوں کے لئے ایک اہم ترین تاریخی اور مذہبی مکانوں میں سے ایک ہے۔ یہ وہی گھر ہے جہاں سے اسلام کا سورج طلوع ہوا اور نور اسلام اسی گھر سے پوری دنیا میں پھیلا۔
حضرت خدیجہ سلام اللہ علیھا کا گھر عالم ہستی کی سب سے برتر اور با فضیلت خاتون، یعنی حضرت فاطمہ زہراء کے تولد کی جگہ ہے- حضرت فاطمہ زہراء کی ولادت کی شب خدا کی بارگاہ سے محترم خواتین اس گھر میں داخل ہوئیں تاکہ حضرت خدیجہ کبری کی مدد کریں- یہ آپ کی فضیلتوں میں سے ہے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت خدیجہ کو اپنی سب سے برتر اور با فضیلت ترین شریک حیات اور عالم ہستی کی چار برگزیدہ خواتین میں سے ایک خاتون کے عنوان سے متعارف فرمایا۔ حضرت خدیجہ کی فضیلت میں پیغمبر اکرم سے متعدد روایات بیان ہوئی ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: دو جہان کی بہترین عورتیں مریم بنت عمران، آسیہ بنت مزاحم، خدیجہ بنت خویلد اور فاطمہ بنت محمد ہیں۔ ایک اور جگہ فرمایا: چار عورتیں دنیا کی عورتوں کی سردار ہیں؛ مریم، آسیہ، خدیجہ اور فاطمہ سلام اللہ علیھم۔
حضرت خدیجہ سلام اللہ علیھا کو رسول خدا کے نزدیک بلند مقام و مرتبہ حاصل تھا- آنحضرت کسی عورت کو حضرت خدیجہ کے ہم رتبہ قرار نہیں دیتے تھے۔ آپ ہمیشہ ان کی تمجید و تعریف فرماتے تھے۔ انھیں اپنی تمام بیویوں پر برتری دیتے اور ہمیشہ آپ کی تکریم و تعظیم فرماتے؛ حتی فرمایا کرتے تھے کہ میں خدیجہ کے دوست و احباب کو بھی دوست رکھتا ہوں۔
ائمہ اطہار علیھم السلام کے نزدیک حضرت خدیجہ کا انتہائی بلند مقام و مرتبہ ہے- وہ ہر مناسبت کے سلسلہ میں حضرت خدیجہ کے بارے میں فخر و مباہات کا اظہار کرتے اور ان کو عزت و احترام سے یاد فرماتے تھے- امام حسین علیہ السلام نے عاشور کے دن اپنے آپ کو متعارف کرواتے ہوئے فرمایا: کیا تم لوگ نہیں جانتے میری نانی خدیجہ بنت خویلد ہیں؟ امام حسن علیہ السلام نے معاویہ کے لشکر سے مخاطب ہو کر فرمایا: کیا تم لوگ نہیں جانتے میں تمہارے پیغمبر کی شریک حیات، حضرت خدیجہ کا بیٹا ہوں۔ امام سجاد علیہ السلام نے دربار یزید میں اپنے مشہور خطبہ میں فرمایا: "انا ابن خدیجة الکبری" میں خدیجہ کبری کا بیٹا ہوں۔
تاریخ میں دو عظیم شخصیات بہت ہی مظلوم واقع ہوئی ہیں۔ یہ شخصیات اپنے زمانے میں بھی مظلوم تھیں۔ تاریخ نے بھی ان پر ظلم کیا اور آج بھی مظلوم ہیں۔ یہ شخصیات حضرت خدیجہ سلام اللہ علیھا اور حضرت ابو طالب علیہ السلام ہیں۔
حضرت خدیجہ کی قدر و منزلت، ایثار و فدا کاری اور صدر اسلام میں آپ کی خدمات اس قدر زیادہ ہیں کہ آپ نے اپنا سب کچھ اسلام کی راہ میں قربان کر دیا لیکن افسوس آپ کی ان خدمات کو بیان اور ان کی قدر دانی کا حق ادا نہیں کیا جاتا۔
اسی طرح حضرت ابو طالب علیہ السلام بھی تاریخ کی مظلوم ترین شخصیت ہیں۔ آپ وہ ہیں جن کے گھر میں نبوت و رسالت پرورش پائی۔ آپ وہ ہیں جو رسول اللہ کی خاطر اپنے زمانے کے ظالموں اور کافروں سے ٹکرا گئے۔ آپ رسول پاک کی حفاظت کے لئے دنیائے کفر کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار تھے۔ لیکن ظلم کی انتہا ہے کہ اسلام کے لئے بے شمار خدمات کے بدلے، آپ کے مسلمان ہونے پر ہی سوالیہ نشان لگا دیا گیا۔
حضرت خدیجہ کی وفات، رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لئے کافی سخت گزری اور آپ کے غم و اندوہ میں ایک سنگین غم کا اضافہ ہو گیا۔ آپ کی سب سے زیادہ پشت پناہی کرنے والے چچا حضرت ابو طالب علیہ السلام کی وفات کو ابھی 35 دن بھی نہیں گزرے تھے کہ حضرت خدیجہ بھی رحلت فرما گئیں۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس سال کو عام الحزن یعنی غم کا سال قرار دیا۔ رسول خدا ہمیشہ فرماتے تھے: جب تک ابو طالب اور خدیجہ زندہ تھے میرے دل میں کبھی غم و اندوہ داخل نہیں ہوا تھا۔
حضرت خدیجہ سلام اللہ علیھا نے ہجرت سے تین سال پہلے 65 سال کی عمر مبارک میں وفات پائی۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آپ کو قبرستان معلی میں سپرد خاک فرمایا۔